ماں کے جگر کا ٹکڑا جس نے اپنے جگر کا ٹکڑا ماں کو دے ڈالا۔۔۔ ہمت، حوصلے اور فرمانبرداری کی مثالی داستان

اسلام آباد (قدرت روزنامہ)مارے معاشرے میں اولاد نرینہ کی پیدائش ایک ماں کے لیے باعث فخر ہوتی ہے اس کی پرورش ماں اپنے خون دل سے کرتی ہے۔ قطرہ قطرہ اپنے جسم و جاں کا اس بچے کی پرورش پر استعمال کرتی ہے ۔ ماں کی ممتا بے غرض ہوتی ہے اور اس کے ذہن و دل میں کبھی بھی یہ گمان نہیں ہوتا ہے کہ وہ اپنے بچے کی پرورش آنے والے کسی صلے کی لالچ میں کر رہی ہوتی ہے- مگر وقت نے یہ بھی دیکھا ہے کہ یہی ماں جب بڑھاپے کی دہلیز پر آجاتی ہے تو ان بیٹوں کے لیے بوجھ بن جاتی ہے اور ماں کی بیماری اور تکلیف بیٹوں کو ڈرامہ لگتی ہے- مگر جیسے ہاتھوں کی پانچوں انگلیاں ایک جیسی نہیں ہوتی ہیں ویسے ہی ہر بیٹا بھی ایسا نہیں ہوتا ہے بلکہ اس دنیا میں کچھ بیٹے سید توصیف شاہ جیسے بھی ہوتے ہیں-سید توصیف شاہ وہ قابل فخر بیٹے ہیں

جنہوں نے گمبٹ کے انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز میں زير علاج اپنی ماں کی جان کو اپنے جگر کا عطیہ دے کر بچا لیا اس حوالے سے اپنی ایک سوشل میڈیا پوسٹ کے ذریعے سید توصیف شاہ کا یہ کہنا تھا کہ ‘ جب میری والدہ کو ڈاکٹرز نے جگر کا کینسر تشخیص کیا تو ہمارے گھر کے سب لوگ بہت پریشان ہو گئے- ڈاکٹروں کے مطابق ان کی جان بچانے کی واحد صورت جگر کو ٹرانسپلانٹ کرنا تھا میرے لیے اس سے بہتر کچھ نہ تھا کہ میں اپنا جگر دے کر اپنی ماں کی جان بچا لوں اس کے لیے ہم نے گمبٹ انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز کا انتخاب کیا جہاں کے عملے کی بہترین کوششوں اور دیکھ بھال کی بدولت میں اور میری والدہ پانچ مہینے تک زیر علاج رہنے کے بعد اب ٹھیک ہیں اور اس حوالے سے ہم اللہ کا جتنا شکر ادا کریں کم ہے-اس کے ساتھ ساتھ سید توصیف شاہ نے اپنی پوسٹ کے ذریعے ڈاکٹر رحیم بخش بھٹی ، ڈاکٹر عبد الوہاب ڈوگر اور انفاق فاؤنڈيشن کا شکریہ ادا کیا جس سے یہ ممکن ہو سکا-سید توصیف شاہ آج کل کے دور میں ایک ایسے مثالی بیٹے ہیں جنہوں نے اپنی ماں کے لیے نہ صرف اپنی جان کو خطرے میں ڈالا بلکہ اپنی ماں سے اپنی بے پناہ محبت کا ثبوت فراہم کیا- ان کی پوسٹ سوشل میدیا پر تیزی سے وائرل ہو رہی ہے اور کرونا وائرس کی بہت ساری بری خبروں کے ساتھ ان کی عظیم قربانی کی خبر تازہ ہوا کے جھونکے کی طرح محسوس ہو رہی ہے