سردار عطاء اللہ مینگل کی سیاست ہی ہمارے لئے وصیت و نصیحت ہے، اختر مینگل

کوئٹہ(قدرت روزنامہ)بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سرداراخترجان مینگل نے کہاہے کہ بلوچ قوم پرست بزرگ رہنماء مرحوم سردارعطاء اللہ خان مینگل کی سیاست ہی ہمارے لئے وصیت اور نصیحت ہے،وہ بلوچستان بالخصوص پاکستان کی سیاست سے مایوس ہوچکے تھے ان کی رائے تھی کہ پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ کا دم چھلا بن کر سیاست کر سکتے ہیں یا پھر اپنے لئے قبر بنالیں۔ان خیالات کااظہار انہوں نے غیرملکی نشریاتی ادارے بی بی سی سے بات چیت کرتے ہوئے کیا۔

سردار اخترمینگل نے بتایا کہ ہم لوگوں کا آبائی قبرستان وڈھ شہر کے عقب میں ہے لیکن والد نے وہاں کے بجائے لوہی میں تدفین کی وصیت کرائی جو کہ چند کلومیٹر کے فاصلے پر وڈھ شہر کے مشرق میں واقع ہے۔سرداراختر مینگل نے بتایا کہ اس علاقے کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ نصیرخان نوری جب یہاں آتے تھے تو وہ اس علاقے میں اپنا پڑا ڈالتے تھے۔انھوں نے بتایا کہ سردار عطا اللہ مینگل نصیرخان نوری سے زیادہ متاثر تھے اور وہ ان کے آئیڈیل تھے کیونکہ نصیرخان نے نہ صرف بلوچ قبائل کو اکٹھا کیا بلکہ ان کی پہلی کنفیڈریسی بھی قائم کی۔’ میرے والد اکثر ان کی کاوشوں کا ذکرکرتے تھے اور شاید اسی وجہ سے انھوں نے اپنی قبر کے لیے اس مقام کا انتخاب کیا۔’اس سوال پر وہاں کوئی پرانی قبریں ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ ‘شہدا کی قبرستان لوہی سے آگے ہے جو کہ دودکی کہلاتا ہے۔

اس علاقے میں گوہرام اور لالو سمیت نورا مینگل کے ان دیگر ساتھیوں کی قبریں ہیں جو کہ انگریزوں کے ساتھ معرکے میں مارے گئے تھے۔’انھوں نے بتایا کہ چونکہ اس معرکے میں بہت سارے لوگ مارے گئے تھے جن کو الگ الگ دفن کرنا ممکن نہیں تھا اس لیے شاید ان کوایک جگہ ہی دفن کیا گیا تھا۔ جو لوگ انگریزوں کے خلاف جنگ میں مارے گئے تھے ان کی یاد میں میرے والد نے وہاں ایک یادگار تعمیرکروائی تھی اور ان پر مارے جانے والوں کے نام کندہ کروائے تھے۔’ایک سوال پر سردار اخترمینگل نے کہا کہ ‘میں نے اور میرے بھائی نے انھیں اس بات پر قائل کرنے کوشش کی وہ اپنے حالات زندگی کو تحریر کروائیں تاکہ ان کو کتابی شکل دی جا سکے لیکن وہ اس بات کے لیے تیار نہیں ہوئے۔اس سوال کے جواب میں انھون نے کہا کہ سردارعطا اللہ نے گذشتہ پانچ سے آٹھ سال کے دوران نہ صرف عملی سیاست کو ترک کیا بلکہ انھوں نے مکمل خاموشی اختیار کی۔ ایک سوال پر سردار اختر مینگل نے کہا کہ وہ بلوچستان باالخصوص پاکستان کی سیاست سے بہت زیادہ مایوس ہوچکے تھے۔

سردار عطا اللہ مینگل کی یہ رائے تھی کہ پاکستان میں آپ اسٹیبلشمنٹ کا دم چھلا بن کر سیاست کرسکتے ہیں یا پھر اپنے لیے قبر بنالیں۔’ان کا کہنا تھا کہ ایک صحافی نے کراچی میں جب ان سے انٹرویو کی درخواست کی تو انھوں نے کہا تھا کہ ‘بھیڑوں کے سامنے کیا بین بجاں۔ کسی کو سمجھ آئے تو میں بات کروں۔ صبح شام ان کے سامنے واقعات رونما ہوتے ہیں کسی کو سمجھ ہی نہیں آتی ہے۔’سردار اختر مینگل نے کہا کہ ان کی سیاست ہی ہمارے لیے وصیت اور نصیحت ہے۔ گلوگیر آواز میں ان کا کہنا تھا کہ ان کے ساتھ رشتہ صرف باپ اور بیٹے کا نہیں تھا بلکہ ایک استاد اور لیڈر کا بھی تھا۔ ان کا جو مقصد تھا اس پر ہم پورا اترے ہیں یا نہیں تاہم انھوں نے ہمیں جو منزل دکھائی ہے ہم کوشش کریں گے اس پگڈنڈی کو نہ چھوڑیں۔