فل کورٹ کے مطالبے پر فواد چوہدری کا ردِعمل آ گیا
اسلام آباد (قدرت روزنامہ) فل کورٹ کے مطالبے پر ترجمان پی ٹی آئی فواد چوہدری کا ردِعمل آ گیا۔سینئر صحافی حامد میر نے چیف جسٹس آف پاکستان کو صوبائی انتخابات ملتوی کیس میں فل کورٹ بنانے کا مشورہ دیا تھا،اٹارنی جنرل نے بھی چیف جسٹس سے فل کورٹ بنانے کی استدعا کی تھی۔تاہم آج سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل کی فل کورٹ بنانے کی استدعا مسترد کر دی۔
اسی حوالے سے حامد میر نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر ٹویٹ کرتے ہوئے کہا کہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے فل کورٹ کی استدعا مسترد کر کے حکومت کے ساتھ محاذ آرائی کا راستہ اختیار کیا ہے ۔اب تحریک انصاف ان تین ججوں کی حمائت اور حکومت مخالفت کریگی،انہوں نے مزید کہا کہ چیف جسٹس حکومت اور تحریک انصاف کو مذاکرات کا مشورہ دے رہے ہیں مناسب ہو گا کہ وہ پہلے ناراض ججوں کے ساتھ مفاہمت کر لیں ۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے فل کورٹ کی استدعا مسترد کر کے حکومت کے ساتھ محاذ آرائی کا راستہ اختیار کیاہے اب تحریک انصاف ان تین ججوں کی حمائت اور حکومت مخالفت کریگی چیف جسٹس حکومت اور تحریک انصاف کو مذاکرات کا مشورہ دے رہے ہیں مناسب ہو گا کہ وہ پہلے ناراض ججوں کے ساتھ مفاہمت کر لیں
— Hamid Mir حامد میر (@HamidMirPAK) March 31, 2023
اسی پر ردِعمل دیتے فواد چوہدری نے کہا پہلی بات تو یہ کہ موجودہ حکومت ان تین جج صاحبان کے سوموٹو کیس میں فیصلے پر بنی، اگر ہمارا فل کورٹ کا مطالبہ اس وقت مانا جاتا تو شائد ملک اس بحران سے بچ جاتا۔انہوں نے مزید کہا کہ دوسرا چیف جسٹس نے کہا کہ جج صاحبان آج سے ملاقاتیں شروع کر رہے ہیں اور پیر کا سورج اچھی نوید لے کر آئے گا۔
پہلی بات تو یہ کہ موجودہ حکومت ان تین جج صاحبان کے سوموٹو کیس میں فیصلے پر بنی، اگر ہمارا فل کورٹ کا مطالبہ اس وقت مانا جاتا تو شائد ملک اس بحران سے بچ جاتا، دوسرا چیف جسٹس نے کہا کہ جج صاحبان آج سے ملاقاتیں شروع کر رہے ہیں اور پیر کا سورج اچھی نوید لے کر آئیگا https://t.co/YH3FuMrIKe
— Ch Fawad Hussain (@fawadchaudhry) March 31, 2023
خیال رہے کہ انتخابات ملتوی کیس،سپریم کورٹ کا 4 رکنی بینچ پھر ٹوٹ گیا۔ جسٹس جمال مندوخیل نے پنجاب اور خیبر پختو نخوا کیس کی سماعت سے معذرت کر لی جس کے بعد سپریم کورٹ کا 4 رکنی بینچ پھر ٹوٹ گیا۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کل کے حکم نامے سے اختلاف کیا۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ سماعت کا حکم نامہ نہ عدالت میں لکھوایا گیا نہ مجھ سے مشاورت کی گئی۔ حکم نامہ کھلی عدالت میں نہیں لگایا گیا۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے فیصلے کا کھلی عدالت میں جائزہ لینا چاہیے۔میں بینچ کا حصہ تھا جو بھی ہوا میری مشاورت سے نہیں ہوا۔مجھے لگتا ہے شاید اس بینچ میں مس فٹ ہوں۔ اس بینچ کو شاید میری ضرورت نہیں،اس دعا کے ساتھ بینچ سے علیحدہ ہو رہا ہوں کہ اللہ ادارے پر رحم کرے۔