عمران حکومت کے بیشتر معاملات جنرل فیض اور آصف غفور چلاتے تھے: ندیم افضل چن


لاہور (قدرت روزنامہ)پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیئر رہنما اور سابق معاون خصوصی برائے وزیراعظم ندیم افضل چن نے انکشاف کیا ہے کہ سابق وزیراعظم عمران خان کے دور میں بیشتر حکومتی معاملات اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید اور سابق ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل آصف غفور چلاتے تھے۔
’دو جنرلز عمران خان کی آنکھ اور کان تھے‘
اسلام آباد میں نجی ویب نیوز پورٹل وی نیو ز سے گفتگو کرتے ہوئے سابق معاون خصوصی برائے وزیراعظم ندیم افضل چن کا کہنا تھا کہ ’عمران خان سب سے زیادہ جنرل فیض حمید اور جنرل آصف غفور پر انحصار کرتے تھے۔ حکومتی پالیسیاں بھی یہی دونوں افراد طے کرتے تھے اور یہی عمران خان کی آنکھ اور کان تھے‘۔
’ جنرل فیض اسٹیبلشمنٹ نہیں حکومت کا حصہ تھے‘
عمران حکومت میں جنرل فیض کے کردار سے متعلق سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ’جنرل فیض اسٹیبلشمنٹ نہیں بلکہ تحریک انصاف اور حکومت کا حصہ تھے۔ وہ روزانہ ہی وزیراعظم کے چیمبر میں موجود ہوتے تھے۔ ندیم افضل چن بقول انہیں یہ لگتا تھا کہ شاید ڈی جی آئی ایس آئی سے ہاتھ ملانے پر زلزلہ آتا ہے لیکن وہاں تو روزانہ ہی جنرل فیض حمید سے ملاقات ہوتی تھی اور ایسا کچھ نہیں ہوا‘۔
’ آخری وقت تک مدتِ ملازمت میں توسیع کی پیش کش‘
اقتدار سے بے دخلی کے بعد عمران خان کی جانب سے سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ پر لگائے گئے الزامات کے حوالے سے ندیم افضل چن کا کہنا تھا کہ عمران خان تو آخری وقت تک انہیں مدت ملازمت میں توسیع کی پیش کش کرتے رہے‘۔
’عمران خان کی سب سے بڑی ناکامی عثمان بزدار تھے‘
پیپلز پارٹی سے اپنی دیرینہ وابستگی کو ترک کرنے اور تحریک انصاف میں شمولیت سے متعلق سوال پر ندیم افضل چن کہتے ہیں کہ ’اس فیصلے میں حلقے کی سیاست کا زیادہ عمل دخل تھا اور یہ فیصلہ کرنے میں انہیں غلطی ہوئی۔ ان کے بقول مجھے ایک برس بعد ہی احساس ہوگیا تھا کہ یہ فیصلہ درست نہیں ہے۔ میں نے عمران خان کو بطور لیڈر جوائن کیا تھا مگر حکومت میں آکر ان کے قول و فعل کا تضاد ظاہر ہوا۔ ان کی کوشش ہوتی تھی کہ وہ عوام کی بات کریں مگر جب ٹیم کے انتخاب کا موقع آیا تو انہوں نے اس پہلو کو یکسر نظرانداز کر دیا۔ بلاشبہ عمران خان کی سب سے بڑی ناکامی عثمان بزدار تھے‘۔
’خان صاحب کو فیصلہ کہیں اور سے موصول ہوا‘
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس بھیجنے سے متعلق سابق معاون خصوصی کا کہنا تھا کہ ’حکومتی اجلاس میں یہ طے ہوا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس نہیں بھیجا جائے گا مگر پھر کہیں اور سے خان صاحب کو فیصلہ موصول ہوا تو ریفرنس بھیج دیا گیا‘۔
’پی پی دور میں گورننس کے مسائل‘
پیپلز پارٹی کی قیادت کے ساتھ کام کرنے اور اسے قریب سے دیکھنے و سمجھنے سے متعلق ایک سوال کے جواب میں ندیم افضل چن کہتے ہیں کہ ’انہیں کو براہ راست بے نظیر بھٹو کے ساتھ کام کرنے کا موقع کم ہی ملا تھا۔ زیادہ تر رابطہ ٹیلی فون یا خط کتابت کے ذریعے ہوتا تھا، البتہ باقی لوگوں سے سنا اور دیکھا بھی کہ بے نظیر اور ذوالفقار علی بھٹو نے عوامی دور گزارا ہے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت جب بھی آتی ہے تو عوام سے لے کر ورکرز تک سبھی کو محسوس ہوتا ہے کہ یہ عوامی دور ہے۔ گورننس کے مسائل ضرور ہیں تاہم آئین، قانون اور انتظامی ڈھانچے میں اصلاحات کا سہرا پیپلز پارٹی کے سر جاتا ہے‘۔
’یہ بندہ سیاسی عزائم رکھتا ہے‘
’عدلیہ بحالی کی تحریک‘ کے ذکر پر سابق معاون خصوصی کا کہنا تھا کہ ’اس تحریک میں ہم سیاسی لوگوں نے ماریں کھائیں، میں نے خود ڈنڈے کھائے۔ ہمیں اس وقت کے صدر آصف علی زرداری نے کہا کہ یہ بندہ سیاسی عزائم رکھتا ہے، جو عدلیہ سمیت سارے سسٹم کو خراب کرے گا۔ حکومتی اراکین اسمبلی کی اکثریت اس وقت زور دیتی تھی کہ فوراً عدلیہ کو بحال کریں، لیکن وقت نے ثابت کیا کہ آصف زرداری کا موقف درست تھا‘۔
’پنجاب میں ن لیگ کی حکومت غلط فیصلہ تھا‘
اس سوال پر کہ پنجاب میں پیپلز پارٹی کے صفایا کیسے ہوا؟ ندیم افضل چن کا جواب تھا کہ ’آصف زرداری نے میثاقِ جمہوریت پر عمل کرتے ہوئے پنجاب میں ق لیگ کی بجائے ن لیگ کو حکومت بنانے دی۔ ان کے بقول اس کے بعد ن لیگ کا رویہ دیکھ کر لگتا تھا کہ یہ غلط فیصلہ کیا گیا۔ 6 ماہ بعد ن لیگ عدلیہ بحالی کے معاملے پر وفاقی حکومت سے الگ ہو گئی تاہم بعد میں معلوم ہوا کہ اس تحریک کے پیچھے جنرل(ر) اشفاق پرویز کیانی تھے۔ اگر اس وقت ق لیگ کے ساتھ اتحاد کر کے پنجاب میں حکومت بنا لیتے تو ہمیں اتنا نقصان نہ ہوتا۔ لیکن میثاق جمہوریت کے تحت جنرل (ر) پرویز مشرف کو اقتدار سے نکالنے کے لیے یہ قربانی بھی دی‘۔
’بلاول بھٹو اگلے وزیراعظم‘
اس سوال پر کہ اگلے وزیراعظم کون ہوگا؟ ندیم افضل چن نے کہا کہ ’میری تو خواہش ہے کہ بلاول بھٹو اگلے وزیراعظم بنیں کیونکہ پیپلز پارٹی ہی اس وقت واحد جماعت ہے جو سب کو ساتھ لے کر چل سکتی ہے‘۔
’ اینٹی اسٹیبلشمنٹ طبقہ خان کے ساتھ آگیا ہے‘
’اینٹی اسٹیبلشمنٹ طبقہ‘ کے کردار سے متعلق سوال پر سابق معاون خصوصی کا کہنا تھا کہ ’ملک میں ہمیشہ سے اینٹی اسٹیبلشمنٹ سوچ رہی ہے۔ پہلے یہ طبقہ بڑی تعداد میں پیپلز پارٹی کے ساتھ تھا، پھر جس وقت نواز شریف نے ووٹ کو عزت دو کا نعرہ لگایا تو لوگ ان کی طرف چل پڑے۔ ملکی نظام کا ستایا ہوا اینٹی سرمایہ دار اور اینٹی اسٹیبلشمنٹ طبقہ عمران خان کے اقتدار سے نکلنے پر اب ان کے ساتھ آگیا ہے‘۔
’سیاسی جماعتیں اور کنٹرولڈ جمہوریت‘
سیاسی جماعتوں میں موروثیت کے حوالے سے ندیم افضل چن کا ماننا تھا کہ ’اس میں کوئی شک نہیں کہ سیاسی جماعتوں میں کنٹرولڈ جمہوریت ہے۔ الیکشن کمیشن کے قوانین اور پارٹی آئین ہمارے عملی اقدامات سے مطابقت نہیں رکھتے‘۔
’میرے پاس ہارنے والا ٹکٹ ہے‘
آئندہ الیکشن میں حصہ لینے اور اُس میں کامیابی سے متعلق ندیم افضل چن نے بتایا کہ ’تحریک انصاف سے علیحدگی کے بعد انہیں ن لیگ میں شمولیت کی آفر کی گئی تھی۔ اس وقت ن لیگ کی ہوا چل رہی تھی لیکن اگر وہ ن لیگ کا حصہ بن جاتے تو یہ موقع پرستی ہوتی۔ پیپلز پارٹی بظاہر اس وقت میرے حلقے میں تیسرے نمبر پر ہے اور میرے پاس ہارنے والا ٹکٹ ہے۔ لیکن میں جس قسم کی سیاست کرنا چاہتا ہوں وہ پیپلز پارٹی میں بہتر طریقے سے ہو سکتی ہے‘۔
’مریم نواز اور عوامی ٹچ‘
مریم نواز کے حوالے سے ندیم افضل چن کہتے ہیں کہ یہ خوش آئند عمل ہے جو ن لیگ کا ووٹر پہلے نواز شریف کا تھا اور اب وہ مریم نواز کی طرف منتقل ہوا ہے۔ تاہم انہیں اپنی طرز سیاست میں تھوڑا سا ’عوامی ٹچ‘ دینا ہوگا۔
’واٹس ایپ میسج وائرل کیا گیا‘
اس دلچسپ سوال پر کہ کورونا وبا کے دوران آڈیو کیسے وائرل ہوئی؟ ندیم افضل چن کا کہنا تھا کہ ’میری عمران خان سے ون آن ون میٹنگ تھی اور میں چاہتا تھا کہ اس کا کوئی گواہ بھی ہو۔ جہانگیر ترین سے تعلقات ان دنوں اچھے نہیں تھے سو میں نے زلفی بخاری کو کہا۔ عمران خان کو دوران ملاقات جو کچھ کہا وہ شاید ان کے لیے سخت باتیں تھیں‘۔ سابق معاون خصوصی کے بقول ’میں نے عمران خان سے کہا کہ وزیراعظم آفس، بیوروکریسی اور انٹیلی جنس بیورو مل کر آپ کی سیاسی قیادت کو بدنام کر رہے ہیں۔ ان کے ٹیلی فون ٹیپ ہوتے ہیں اور انہیں تذلیل کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ میں نے اپنا استعفیٰ بھی دیا کہ میں ان حالات میں کام نہیں کرسکتا جو انہوں نے قبول نہیں کیا۔ ان چیزوں کا اعظم خان کو پتا چل گیا جن کا اس وقت کے ڈی جی آئی بی کے ساتھ گٹھ جوڑ تھا۔ کچھ دنوں کے بعد میرا واٹس ایپ میسج وائرل کر دیا گیا کہ شاید اس کا مجھے نقصان ہوگا۔ ان کے بقول اگلے کابینہ اجلاس میں عمران خان ناراض بھی ہوئے کہ یہ آپ نے کیا کہہ دیا۔ جس پر میں نے کہا کہ یہ میرا پرسنل میسج تھا اور اس پر انکوائری کرائیں کہ یہ کیسے لیک ہوا، لیکن انکوائری نہیں کرائی گئی‘۔
’ گرفتاری کا فائدہ عمران خان کو ہوگا‘
عمران خان کی گرفتاری سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ ’سیاسی عزائم کی بنیاد پر قائم کیے گئے مقدمات میں ان کی گرفتاری نہیں ہونی چاہیے۔ ہاں اگر کوئی ایسا کیس جس میں میرٹ پر ان کی گرفتاری بنتی ہے تو پھر قانون کے مطابق فیصلہ ہونا چاہیے۔ کسی سیاسی مقدمے میں کی گئی گرفتاری کا فائدہ عمران خان ہی کو ہوگا‘۔
’سرمایہ دار ہر جماعت کی آنکھ کا تارا ہیں‘
پاکستان کو مسائل کے گرداب سے نکالنے کے حوالے سے ندیم افضل چن کا کہنا تھا کہ ’اس ملک میں 3 سو لوگ (سرمایہ دار) ایسے ہیں جن کی اپنی کوئی جماعت یا فرقہ نہیں ہے، لیکن وہ ہر جماعت کی آنکھ کا تارا ہیں اور وہ ہر پالیسی سے فائدہ بھی اٹھاتے ہیں، اگر ہمیں عوامی حمایت حاصل کرنی ہے تو ان سرمایہ داروں کو پالیسی میکنگ سے نکالنا ہو گا۔ سیاست دانوں کو کسی دوسرے بالخصوص عدلیہ کی طرف دیکھنے کی بجائے پارلیمان میں بیٹھ کر مسائل حل کرنا ہوں گے۔ الیکٹیبلز کی حوصلہ شکنی اور سیاسی جماعتوں کے اندر جمہوریت کو فروغ دینا ہوگا‘۔