لاہور (قدرت روزنامہ) ممتاز قانون دان نے جسٹس اطہر من اللہ کے اختلافی نوٹ پر سوال اٹھا دیا . تفصیلات کے مطابق ملک کے ممتاز قانون دان حامد خان نے نجی ٹی وی چینل دنیا نیوز کے پروگرام آج کامران خان سے گفتگو کرتے ہوئے پنجاب الیکشن سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے پر جسٹس اطہر من اللہ کے اختلافی نوٹ کے حوالے سے اہم سوالات اٹھا دیے .
حامد خان نے کہا کہ جب اطہر من اللہ سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ کا حصہ ہی نہیں تھے تو اختلافی نوٹ کیسا؟ سپریم کورٹ کا حتمی فیصلہ وہی ہے جو 5 رکنی بینچ نے دیا . حامد خان نے مزید کہا کہ صرف جسٹس منصور اور جسٹس مندوخیل کے اختلافی نوٹس فیصلے کا حصہ ہیں کیونکہ یہ دونوں ججز بینچ میں شامل تھے . جبکہ اس حوالے سے ایک اور معروف ماہر قانون سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ الیکشن کیس سے متعلق 9 رکنی بینچ تو بحث ہی نہیں کی تھی، بعد ازاں چیف جسٹس نے بینچ دوبارہ تشکیل دیا اور فیصلہ وہی ہے جو 5 رکنی بینچ نے دیا .
دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف کے ترجمان فواد چودھری نے اس حوالے سے کہا ہے کہ سیاسی فیصلہ کرنا سیاسی جماعت کا حق ہے، لیکن ایک جج کسی سیاسی جماعت پر پالیسی جیسے ڈکٹیٹ یا مسلط کرسکتا ہے؟ کتنی حیرت انگیز آبزرویشنز ہے . جسٹس اطہر من اللہ نے اختلافی نوٹ میں 90 دن کے اندر انتخابات کے اصول کو تسلیم کیا، ہمارا بنیادی مسئلہ الیکشن ہیں جج یا بنچ نہیں .
جبکہ جسٹس اطہر من اللہ کے اختلافی نوٹ کے حوالے سے پاکستان پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما لطیف کھوسہ کا کہنا ہے کہ جو کچھ کیا جا رہا ہے اس سب سے الیکشن کے معاملے کو خوامخواہ متنازعہ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے . واضح رہے کہ پنجاب اور خیبر پختو نخوا نتخابات از خود نوٹس پر سپریم کورٹ کے جسٹس اطہر من اللہ نے تفصیلی نوٹ جاری کیا ہے،تفصیلی نوٹ 25 صفحات پر مشتمل ہے .
ہم نیوز کی رپورٹ کے مطابق اپنے اختلافی نوٹ میں جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا ہے کہ پنجاب اور خیبرپختو نخواہ الیکشن کا معاملہ خالصتاً سیاسی نوعیت کا ہے،قلیل مدت میں سپریم کورٹ کو تیسری مرتبہ سیاسی معاملہ میں گھسیٹا جا رہا ہے، ملک میں اس وقت نہ رکنے والا سیاسی ہیجان ہے، سپریم کورٹ غیر معمولی طور سیاسی تقسیم کے اس عمل کی توجہ کا مرکز بنی رہی .
جسٹس اطہر من اللہ کے مطابق سپریم کورٹ میں پہلی مرتبہ معاملہ اس وقت آیا جب عدم اعتماد کی تحریک چل رہی تھی، چیف جسٹس نے 12ججز سے مشاورت کے بعد عدم اعتماد پر ازخودنوٹس لیا، 5 ججز نے فیصلہ دیا کہ رولنگ پر ووٹنگ کرنے کی بجائے اسمبلی تحلیل کرنا غیر آئینی عمل تھا . جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا ہے کہ عمران خان کے خلاف عدم اعتماد پر از خود نوٹس لینا بھی غلط تھا، عدم اعتماد کی ووٹنگ کے عمل سے عمران خان کو وزارت عظمیٰ سے ہاتھ دھونا پڑا، سیاسی بحران اس وقت شدید ہو گیا جب ایوان کا اعتماد کھونے کے بعد استعفے دیے گئے .
جسٹس اطہر من اللہ نے اپنے نوٹ میں لکھا کہ جسٹس منصور علی شاہ اور جمال مندوخیل کا تفصیلی فیصلہ پڑھا، جمال مندوخیل اورجسٹس منصور علی شاہ کی 4/3کی رائے سے متفق ہوں، آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے فیصلے کے دور رس نتائج مرتب ہوئے . دونوں صوبوں میں انتخابات نہ کرانے پر متعلقہ ہائیکورٹس سے رجوع کیا گیا، ہائیکورٹس میں کیس زیرالتواء تھا اس کے باوجود از خود نوٹس لیا گیا . ہائیکورٹس کی صلاحیت و اختیار پر شبہ کرنے کی کوئی وجہ نہیں بنتی، سپریم کورٹ اگر فل کورٹ تشکیل دیتی تو اس صورتحال سے بچا جا سکتا تھا، عوام کے اعتماد کو قائم رکھنے کیلئے فل کورٹ لازمی تھا .