پاکستان ڈیفالٹ کرے گا نہ اسے سری لنکا اور گھانا جیسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑے گا، سربراہ آئی ایم ایف
اسلام آباد (قدرت روزنامہ) بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹالینا جارجیوا کا کہنا ہے کہ پاکستان ڈیفالٹ کی سطح پر نہیں پہنچا اور امید ہے کہ وہ اس سطح پر نہیں پہنچے گا۔واشنگٹن ڈی سی میں واقع فنڈ ہیڈ کوارٹر میں بریٹن ووڈ انسٹی ٹیوشنز (بی ڈبلیو آئیز) جیسے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے موسم بہار کے اجلاس کے موقع پر ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے آئی ایم ایف کی ایم ڈی نے کہا کہ فنڈ اسٹاف ملک کی فنانسنگ گیپ کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے بین الاقوامی شراکت داروں سے تصدیق حاصل کر رہا ہے۔
پاکستان کو درپیش ڈیفالٹ خطرے کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پاکستان ابھی اس سطح پر نہیں پہنچا اور نہ ایسا ہوگا لیکن اسے ایسے خطرات سے بچنے کے لیے ایک پائیدار پالیسی فریم ورک کی ضرورت ہے۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ پاکستان آئی ایم ایف کی مالی اعانت سے چلنے والا اپنا جاری پروگرام مکمل کر لے گا۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ پاکستان موسمیاتی تبدیلی کے خطرے میں سب سے آگے ہے۔
دریں اثناء پاکستان کے وزیر خزانہ اور محصولات سینیٹر محمد اسحاق ڈار نے اسلام آباد سے زوم کے ذریعے آئی ایم ایف/ورلڈ بینک کے موسم بہار کی میٹنگز میں آئی ایم ایف کی ڈپٹی منیجنگ ڈائریکٹر اینٹونیٹ مونیسو سیح کے ساتھ شرکت کی۔اجلاس کے دوران ذرائع نے یہ بات آئی ایم ایف کے ڈپٹی ایم ڈی کے حوالے سے بتائی کہ پاکستان ابھی تک اپنے 6 ارب ڈالرز کے بیرونی فنانسنگ گیپ کو پورا نہیں کر سکا جس میں سے 3 ارب ڈالرز کی اسٹاف لیول معاہدہ کرنے سے پہلے ضرورت ہوگی۔
اس حوالے سے ذرائع نے بتایا کہ گورنر اسٹیٹ بینک جمیل احمد جو اس وقت آئی ایم ایف/ڈبلیو بی موسم بہار کی میٹنگ میں شرکت کے لیے واشنگٹن کے دورے پر ہیں، نے شرکاء کو بتایا کہ متحدہ عرب امارات نے اسٹاف لیول معاہدہ پر دستخط کرنے کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے 1 ارب ڈالر کے اضافی ڈپازٹس کی فراہمی کے معاہدے کا مسودہ شیئر کیا۔ ایک اعلیٰ عہدیدار نے امید ظاہر کی کہ متحدہ عرب امارات کے ڈپازٹ کی جلد ہی تصدیق ہو جائے گی۔
جب ان سے کسی بھی وقت شیئر کرنے کو کہا گیا تو انہوں نے امید ظاہر کی کہ یہ اگلے ہفتے تک ہو جائے گا۔ کراس فیول سبسڈی پر آئی ایم ایف کو بتایا گیا کہ یہ صرف ایک آئیڈیا تھا جو ایک متعلقہ وزارت نے پیش کیا تھا اور اس پر عمل درآمد صرف اس صورت میں کیا جائے گا جب اس طرح کی اسکیم کی تمام نمایاں خصوصیات پر اتفاق کیا جائے گا۔پاکستانی حکام نے آئی ایم ایف سے اتفاق کیا کہ ایسی اسکیم کاغذات میں اچھی لگتی ہے لیکن اس پر شفاف طریقے سے عمل درآمد کرنا واقعی مشکل ہوگا۔