بیورو آف سپلائی اینڈ پرائسز کی غیر فعالی سے عوام پریشان
کراچی(قدرت روزنامہ) صوبہ سندھ بشمول کراچی میں عام استعمال کی اشیا کے ناپ تول کا نظام نہ ہونے کے برابر ہے جب کہ ناپ تول کے سامان کو چیک کرنے کے لیے ذمے دار صوبائی محکمہ بیورو آف سپلائی اینڈ پرائسز کے عملی طور پر غیر فعال ہونے کی وجہ سے عوام کو سخت مشکلات کا سامنا ہے۔بیورو نے نیپا چورنگی گلشن اقبال میں اس مقصد کیلیے شکایتی مرکز قائم کر رکھا ہے،لیکن عوام وہاں شکایات درج نہیں کراتے، مذکورہ شکایتی مرکز گزشتہ 10 سے 12 سال سے قائم ہے لیکن مشکل سے مہینے میں ایک یا دو شکایات درج ہوتی ہیں۔
مذکورہ شکایتی مرکز کے نمائندے آفتاب عالم نے ایکسپریس ٹربیون کو بتایا کہ مذکورہ سیل میں کوئی اکا دکا شکایت ہی درج کرائی جاتی ہے،عام دنوں میں ہر مہینے ایک یا دوشکایت درج ہوتی ہے جبکہ رواں ماہ رمضان کے دو عشرے گزرجانے کے باوجود ابھی تک صرف تین لوگوں نے شکایات درج کرائی ہیں، جتنی بھی شکایات درج ہوئی ہیں وہ سبزی اور فروٹ کے زیادہ نرخوں پر بیچنے سے متعلق ہیں۔
عام لوگوں کا خیال ہے کہ لوگوں کا بیورو کے نظام پر اعتماد نہیں رہا، اس وجہ سے وہ ان کے شکایتی مرکز پر شکایات درج نہیں کراتے۔کورنگی چکرا گوٹھ علاقے کے رہائشی اور مقامی یونیورسٹی کے ملازم انور ابڑو کے مطابق لوگ مہنگائی اور زیادہ نرخوں پر اشیاء کی فروخت سے تنگ ہیں اور وہ شکایات درج کرانا چاہتے ہیں لیکن صرف اس صورت میں جب ان کی شنوائی بھی ہو۔ عام طور پر شکایت کرنا بھی ضروری نہیں ہونا چاہیے، بیورو کے عملے کو خود کارروائی کرنی چاہیے، جس طرح ماہ رمضان میں خصوصی اختیارات ملنے پر ڈپٹی کمشنرز اور اسسٹنٹ کمشنرزکرتے ہیں۔
مقامی وکیل غلام مرتضیٰ کھوڑو کے مطابق سندھ کموڈٹیز ایکٹ 2005 کے تحت بیورو آف سپلائی اینڈ پرائسز اپنے طور پر کارروائی کرسکتا ہے، اس مقصد کے لیے ان کے پاس انسپیکٹرز مقرر ہیں لیکن عام طور پر یہ عملہ مارکیٹوں میں جاتا ہی نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ عام لوگوں کا بیورو پر اعتماد نہیں رہا، بیورو آف سپلائی اینڈ پرائسز پہلے ایک خودمختار محکمہ تھا اور اب محکمہ زراعت کا حصہ ہے، ان کے پاس ہر قسم کی سہولیات دستیاب ہیں، لیکن اس کے افسر اور عملہ صرف تنخواہیں اور مراعات لیتا ہے، کارکردگی کچھ بھی نہیں ہے۔
لیاری کے رہائشی اور معروف شاعر و صحافی توقیر چغتائی نے ایکسپریس ٹربیون کو بتایا کہ بہت عرصہ پہلے تک بیورو کا عملہ مارکیٹوں میں ناپ و تول کا سامان چیک کرتا دکھائی دیتا تھا، مذکوہ عملہ دکانوں اور ٹھیلوں پر ترازو اور بٹے چیک کرتا تھا لیکن کئی سالوں سے یہ کام عملی طور پر نہیں ہورہا ہے۔صدر کے ایک بزرگ عبدالرحمن کے مطابق بڑے عرصے سے وہ کئی ٹھیلے والوں کو تول کے لیے اینٹیں اور پتھر استعمال کرتے دیکھ رہے ہیں، اب تو یہ عمل اتنا عام ہے کہ کوئی اعتراض بھی نہیں کرتا۔
مذکورہ بزرگ سے جب دریافت کیا کہ وہ اس غیر قانونی عمل کی شکایت کیوں نہیں کرتے تو انھوں نے کہا کہ ہمارے صوبے میں نظام حکومت اتنا خراب ہے کہ شکایت کرنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا، انھوں نے دو سال پہلے ایک مرتبہ شکایت درج کرائی تھی لیکن آج تک اس کا کوئی جواب نہیں ملا۔لکی اسٹار صدر کے قریب واقع ایک پٹرول پمپ سے اپنی موٹر سائیکل میں پٹرول بھرانے والے لانڈھی کے رہائشی عبدالغنی نے بتایا کہ وہ سندھ سیکریٹریٹ میں ملازم ہے اور روزانہ واپسی پر پٹرول بھرواتا ہے، ان کا تجربہ ہے کہ بعض پٹرول پمپ والوں کے میٹر صحیح نہیں ہوتے اس وجہ سے وہاں سے کم مقدار میں پٹرول ملتا ہے۔
ان سے جب پوچھا گیا کہ وہ اس کی شکایت بیورو آف سپلائی اینڈ پرائسز سے کیوں نہیں کرتے، اس پر انھوں نے پہلے تولاعلمی کا اظہار کیا کہ پٹرول پمپ والوں کو چیک کرنا بھی سندھ میں کسی محکمے کی ذمہ داری ہے، اس کے بعد ان کا جملہ تھا کہ” کون پوچھتا ہے سر یہاں، جیسے چل رہا ہے چلنے دو “۔