خزانہ کمیٹی کا اجلاس، الیکشن فنڈز کا معاملہ کابینہ اور قومی اسمبلی بھجوانے کا فیصلہ


اسلام آباد(قدرت روزنامہ) سپریم کورٹ کی جانب سے اسٹیٹ بینک کو پنجاب اسمبلی کے انتخابات کیلیے فنڈز فراہم کرنے کے حکم پر قائمہ کمیٹی نے اسٹیٹ بینک کو معاملہ وزارت خزانہ کو بھجوانے کی ہدایت کردی۔قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کا خصوصی اجلاس چیئرمین قیصر احمد شیخ کی زیر صدارت ہوا، جس میں عدالت عظمیٰ کی جانب سے اسٹیٹ بینک کو پنجاب اسمبلی کے انتخابات کے لیے 21 ارب روپے جاری کرنے کے معاملہ زیر بحث آیا۔
اجلاس میں وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ، وزیر تجارت نوید قمر ، قائم مقام گورنر اسٹیٹ بینک، آڈیٹر جنرل آف پاکستان ، وزرات خزانہ کے حکام، اٹارنی جنرل آف پاکستان، وزیر مملکت خزانہ عائشہ غوث پاشا شریک ہوئے۔ اجلاس میں چیئرمین کمیٹی نے وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی عدم شرکت پر اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ ایک سال سے کمیٹی اجلاس میں وزیر خزانہ نہیں آئے، ہم بارہا کہہ چکے ہیں۔رکن کمیٹی برجیس طاہر نے کہا کہ پنجاب میں الیکشن ملک کے لیے نقصان پہنچانے کے مترادف ہے۔ یہ طریقہ کار درست نہیں۔ سپریم کورٹ نے63 اے میں ترمیم کر کے ملکی سیاسی سسٹم کا بیڑا غرق کر دیا۔ سپریم کورٹ اب آرٹیکل 84 میں بھی ترمیم کر دے۔ فنڈز کا اجرا حکومت کی صوابدید ہے، سپریم کورٹ گورنر کو کیسے کہہ سکتی ہے۔
وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے اجلاس میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ 2 مرتبہ الیکشن اخراجات ملک کے مفادمیں نہیں۔ آئین کاآرٹیکل بالکل واضح ہے۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کےفیصلے کااحترام، مگر آئین پاکستان سب سے مقدم ہے۔ ہم نے آئین کے تحفظ کا حلف لے رکھا ہے۔ افسران آئین کوپس پشت ڈال کر کیسے پیسے دے سکتے ہیں؟۔انہوں نے کہا کہ کل اگر فنڈز فراہمی کا عمل غیر آئینی ثابت ہوا تو اسٹیٹ بینک کے ملازمین تنخواہیں دے کر 21 ارب پورا کریں گے؟۔ سپریم کورٹ کا کہنا ہے یہ چارج ایکسپنڈیچر نہیں دیگر اخراجات میں ڈالے جائیں۔سپریم کورٹ کے اسٹیٹ بینک کو فنڈز اجرا کا معاملہ بھی پارلیمان کو بجھوایا جائے۔سپریم کورٹ کا فیصلہ آئین کی منشا کے مطابق متعلقہ فورم میں جانا چاہیے۔
اجلاس میں موجود اٹارنی جنرل نے کہا کہ وزارت خزانہ سپریم کورٹ کے حکم پر ڈیمانڈ کابینہ اور قومی اسمبلی کو بھجوائے۔اس کی حتمی منظوری قومی اسمبلی نے دینی ہے۔ اس پراسس کو آئین کے مطابق کیا جائے گا۔کمیٹی وزارت خزانہ کو اس عمل کو پروسس کرنے کا کہے۔ سپریم کورٹ کے حکم پر ایگزیکٹو اتھارٹی نے عمل کرنا ہے۔ وزارت خزانہ، وفاقی کابینہ بھی اس سمری کو منظور کرے گی۔ وفاقی کابینہ کی منظوری کے بعد معاملے کو قومی اسمبلی میں بھیجا جائے گا۔ قومی اسمبلی سپریم کورٹ کے حکم پر فنڈز اجرا کی حتمی منظوری دے گی۔وزیر مملکت خزانہ نے کہا کہ ہمیں آئین اور قانون کے مطابق چلنا ہے۔ وزارت خزانہ فنڈز اجرا اور بجٹ سے متعلق رولز اورقوانین پر عملدرآمد کی پابند ہے۔ اسٹیٹ بینک سمری بھیجے، ہم وفاقی کابینہ کے سامنے رکھ دیں گے۔
وزیر تجارت نوید قمر کا کہنا تھا کہ آئین میں عدلیہ، مقننہ اور انتظامیہ کا اپنا اپنا کردار ہے۔ پارلیمان کا کام قانون سازی ،وزیر اعظم کا انتخاب اور بجٹ کی منظوری ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ بجٹ اور قانون سازی کا حق بھی چھینا جا رہا ہے۔ عدالت کی توہین پر افسران جیل جانے سے ڈرتے ہیں تو پارلیمان کی توہین پر بھی جیل بھیجا جا سکتا ہے۔
بعد ازاں قائمہ کمیٹی خزانہ نے اسٹیٹ بینک کو پروسیجر فالو کرتے ہوئے معاملہ وزارت خزانہ کو بھجوانے کی ہدایت کردی۔ کمیٹی نے کہا کہ وزارت خزانہ اسٹیٹ بینک کی سمری کو وفاقی کابینہ کے سامنے رکھے۔وزیر قانون نے کہا کہ عدلیہ سے ٹکراؤ نہیں چاہتے۔ کابینہ اور قومی اسمبلی اجلاس آج شیڈول ہیں۔ نیک نیتی کے ساتھ سمری بھجوائیں، آج ہی پروسس مکمل ہو جائے گا۔خزانہ کمیٹی نے الیکشن فنڈز کا معاملہ دوبارہ کابینہ اور قومی اسمبلی بھجوا دیا۔
قبل ازیں پنجاب اسمبلی انتخابات کے لیے فنڈز فراہمی روکنے سے متعلق وفاقی وزرا اور معاشی ٹیم کا مشاورتی اجلاس ہوا۔ ذرائع کے مطابق سپریم کورٹ کی جانب سے گورنر اسٹیٹ بینک کو فنڈز کے اجرا کے حکم کے تناظر میں وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کی زیر صدارت مشاورتی اجلاس ہوا، جس میں وزیر مملکت برائے خزانہ، معاون خصوصی برائے خزانہ، وزارت خزانہ کے حکام شریک ہوئے۔قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی خزانہ کے خصوصی اجلاس سے قبل ہونے والی مشاورت میں الیکشن کے لیے فنڈز کا اجرا روکنے کے حوالے سے قانونی نکات کا جائزہ لیا گیا اور مشاورت کی گئی کہ اسٹیٹ بینک کو فنڈز اجرا سے کیسے روکا جا سکتا ہے۔
وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کی صدارت میں ہونے والی مشاورتی بیٹھک میں قائم مقام گورنر اسٹیٹ بینک، اسپیشل سیکرٹری خزانہ، چیئرمین خزانہ کمیٹی قیصر شیخ ، وزیر تجارت نوید قمر، وزیر مملکت خزانہ عائشہ غوث پاشا، اٹارنی جنرل، آڈیٹر جنرل آف پاکستان اکاؤنٹنٹ جنرل حکام شریک تھے۔