عالمی برادری طالبان پر دباؤ ڈالنے کے نئے طریقے تلاش کرے، اقوام متحدہ


دوحہ (قدرت روزنامہ) اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے طالبان حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ افغانستان میں خواتین کے حقوق سلب ہونے پر فکر مند ہیں۔عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق دوحہ میں افغانستان کی صورت حال پر ہونے والے 20 سے زائد ممالک کے عالمی اجلاس کے بعد پریس کانفرنس میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرس نے مطالبہ کیا کہ طالبان پر دباؤ بڑھانے کے لیے عالمی برادری کو مذاکرات کے نئے راستے چننا ہوں گے۔
جنرل سیکرٹری یو این انتونیو گوتیرس نے بتایا کہ طالبان حکومت کی جانب سے این جی اوز میں کام کرنے والی خواتین پر پابندی کے بعد عالمی برادری افغانستان سے متعلق اپنی پالیسیوں کو تبدیل کرنے پر غور کر رہی ہے۔خیال رہے کہ طالبان کی جانب سے امدادی تنظیموں میں کام کرنے والی خواتین پر پابندی کے بعد اقوام متحدہ بھی افغانستان میں اپنی امدادی سرگرمیوں کو جاری رکھنے یا بند کرنے کا جائزہ لے رہا ہے۔
انتونیو گوتریس نے پریس کانفرس میں مزید کہا کہ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران ہم افغانستان میں رہے اور ہم نے ڈیلیور کیا اور اب بھی ہم اپنا کام جاری رکھنے کے لیے ضروری شرائط تلاش کرنے کے لیے پُرعزم ہیں۔یو این کے جنرل سیکرٹری نے کہا کہ اپنے مقاصد کو حاصل کرنے تک ہم افغان عوام کو دی جانے والی امدادی سرگرمیوں سے منقطع نہیں ہو سکتے اور بہت سے ممالک نے ان سرگرمیوں کو مزید مؤثر بنانے کا مطالبہ کیا ہے۔
ادھر دوحہ میں طالبان دفتر کے سربراہ سہیل شاہین نے کہا کہ اقوام متحدہ کے زیر اہتمام افغانستان پر ہونے والے اجلاس میں ہمارے کسی نمائندے کو شامل نہ کرنے سے اجلاس غیر مؤثر اور بے نتیجہ ثابت یوسکتا ہے۔طالبان نمائندے سہیل شاہین نے عالمی برادری کے طالبان پر دباؤ ڈالنے کے اقوام متحدہ کے مطالبے پر ’’اے ایف پی‘‘ کو ردعمل میں کہا کہ دباؤ ڈالنے سے مسائل کے حل میں کوئی مدد نہیں ملتی۔
سہیل شاہین نے مزید کہا کہ دنیا کو ہماری بات سننی چاہیے۔ ہمارے جائز حقوق سے انکار کر کے اور ہمیں افغانستان کے بارے میں ملاقاتوں میں مدعو نہ کر کے یا ہماری بات نہ سننے سے وہ نہ تو اس حقیقت کو بدل سکتے ہیں جو کہ IEA (امارت اسلامیہ افغانستان) ہے اور نہ ہی کوئی ایسا حل تلاش کر سکتے ہیں جس کی ضرورت ہے۔دوسری جانب سیکرٹری جنرل اقوام متحدہ انتونیو گوتریس نے طالبان کی مذاکرات میں شمولیت پر کہا کہ طالبان سے ملاقات مناسب وقت پر ہوگی اور ابھی وہ مناسب وقت نہیں آیا۔