پنجاب

ہر کردار بے نقاب ہوچکا ، اڑان بھرتے پاکستان کے بال وپر کس نے کاٹے؟عرفان صدیقی نے اہم تفصیلات شیئر کر دیں


لاہور (قدرت روزنامہ)’’الوداع آئی ایم ایف‘‘ سے ’’خوش آمدید آئی ایم ایف‘‘ تک کا ہر کردار بے نقاب ہوچکا ,اڑان بھرتے ہوئے پاکستان کے بال وپر کس نے کاٹے؟ اب یہ کوئی راز نہیں رہا۔سب کو اپنے اپنے حصے کا قرض چکانا ہوگا۔ ورنہ اپنی ساکھ کے حوالے سے ’’دیوالیہ‘‘ قرار پائیں گے۔سینیٹر اور سینئر تجزیہ کار عرفان صدیقی نے اپنے بلاگ میں اہم تفصیلات شیئر کر دیں۔
“جیو نیوز ” میں شائع ہونیوالے اپنے بلاگ بعنوان “آئی ایم ایف- الوداع سے خوش آمدید تک!” میں عرفان صدیقی نے لکھا کہ ٹھیک 7 برس پہلے، جولائی 2016ءمیں وزیراعظم نوازشریف نے کہا تھا ۔ ’’آج کے بعد اِن شاء اللہ ہمیں کبھی آئی۔ایم۔ایف کے سامنے ہاتھ پھیلانے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ الوداع آئی۔ایم۔ایف۔‘‘ اور آج ہم آئی۔ایم۔ایف سے3 ارب ڈالر کا اسٹینڈ بائی پیکیج ملنے کے بعد، اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے نعرہ زن ہیں۔ ’’خوش آمدید آئی۔ایم۔ایف۔‘‘ اڑان بھرتے ہوئے پاکستان کے بال وپر کس نے کاٹے؟ اب یہ کوئی راز نہیں رہا۔ ’’الوداع آئی ایم ایف‘‘ سے ’’خوش آمدید آئی ایم ایف‘‘ تک کا ہر کردار بے نقاب ہوچکا ہے۔
عرفان صدیقی نے لکھا کہ نوازشریف نے جون 2013ء میں تیسری بار وزارتِ عظمیٰ کا منصب سنبھالا تو 3 بڑے مسائل زہریلے شیش ناگوں کی طرح پھنکار رہے تھے۔ توانائی کا شدید بحران بے قابو ہوچکا تھا۔ بیس بیس گھنٹوں کی لوڈشیڈنگ نے صنعتی، تجارتی اور کاروباری سرگرمیاں مفلوج کررکھی تھیں، معیشت تیزی کے ساتھ روبہ زوال تھی اور دہشت گردی نے ملک کے طول وعرض کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔ ان3 بڑی ترجیحات کیساتھ نوازشریف نے تیسرے سفر کا آغاز کیا۔ ایک بیل آؤٹ پیکیج کیلئے آئی۔ایم۔ایف سے رجوع کرنے کا فیصلہ ہوا۔ ستمبر کے اوائل میں آئی۔ایم۔ایف سے3 برسوں پر محیط 6.6 ارب ڈالر کا پیکیج مل گیا۔ ایوب خان سے 2008ءمیں قائم ہونے والی پی پی پی حکومت تک20 پروگراموں میں سے کوئی ایک بھی کامیابی کے ساتھ پایۂ تکمیل کو نہ پہنچ پایا تھا۔
عرفان صدیقی نے لکھا کہ’’انقلابی عناصر‘‘ بھی اپنے ایجنڈے کی تکمیل کیلئے مسلسل متحرک رہے۔ شاہراہِ دستور پر عمران خان اور طاہرالقادری کے طویل دھرنے، وزیراعظم ہاؤس پر یلغار، اوردھمکی کہ ’خیر چاہتے ہو تو استعفیٰ دے کر گھر چلے جاؤ،‘ جمہوریت کی کھدی قبریں، سربکف کفن پوش دستے، پاناما کا ڈرامہ، ڈان لیکس کا ناٹک، رنگا رنگ جتھوں کی اسلام آباد پر چڑھائی اور انہیں معقول یومیہ الائونس دینے کی ویڈیوز، ملازمت میں توسیع کے لئے انگاروں پہ لوٹنے والے کی کرتب کاریاں اور میڈیا کے ذریعے کردارکشی کی طویل مہم کے متوازی نوازشریف اپنی طے کردہ راہ پر چلتا رہا۔ اگست 2016ء میں، جب نوازشریف کی پیٹھ پر پانامہ کے تازیانے برسائے جارہے تھے، ہماری تاریخ کا پہلا، اور اب تک کا واحد آئی ایم ایف پروگرام مکمل ہوگیا۔ 1.2ارب ڈالر کی آخری قسط جاری کرتے ہوئے آئی۔ایم۔ایف کے ڈائریکٹر برائے مشرق وسطیٰ اور وسط ایشیا ءنے رائٹر کو بتایاکہ _ ’’یہ پروگرام مکمل ہونے کے ساتھ ہی پاکستان اپنے بل بوتے پر آگے بڑھنے کے قابل ہوجائے گا۔ اب تک معیشت کی تعمیر نو کیلئے خاصی پیش رفت ہوچکی ہے۔ پاکستان یہ دعویٰ کرنے میں حق بجانب ہے کہ اب اُسے کسی مزید آئی۔ایم۔ایف پروگرام کی ضرورت نہیں رہے گی۔ حکومت نے زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ کرلیا ہے۔ بجٹ خسارا نصف رہ گیا ہے اور معاشی ترقی کی شرح نمو (GDP) خطے کے تمام ممالک سے بہتر ہوگئی ہے۔‘‘ آئی۔ایم۔ایف کے مذاکراتی مشن کے سربراہ ہیرالڈ فِنگر نے کہا _ ’’آئی۔ایم۔ایف پروگرام کے دوران پاکستان نے اپنے تمام معاشی اشاریے بہتر بنا لئے ہیں اور اقتصادی استحکام کے ذریعے مضبوط معیشت کی ٹھوس بنیادیں ڈال دی ہیں۔‘‘
v بلاگ کے آخر میں عرفان صدیقی نے لکھا کہ اسکا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ 2018ء جیسی مشقِ تیرہ بخت پھر سے دہرایا جائے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک کو بحرانوں کی چتا میں نہ جھونکیں۔ سنجیدہ خو صاحبانِ قلم وقرطاس اور مبصرین کو ضرور اپنی سمت کا تعین کرنے کیلئے ذہن وفکر کے نئے دریچے وا کرنا ہونگے۔ سب کو اپنے اپنے حصے کا قرض چکانا ہوگا۔ ورنہ اپنی ساکھ کے حوالے سے ’’دیوالیہ‘‘ قرار پائیں گے اور اس دیوالیہ پن سے بچنے کیلئے ابھی تک کوئی’’ آئی۔ایم۔ایف‘‘ وجود میں نہیں آیا۔

متعلقہ خبریں