سولر پینل درآمد کرنیوالے تاجروں کی مشکلات ختم نہ ہوسکیں
کراچی(قدرت روزنامہ) حکومت کی جانب سے درآمدات کی مکمل بحالی کے اعلان کو دو ہفتے ہوچکے ہیں، لیکن ابھی تک سولر پینل کے درآمد کنندگان اپنا مال چین سے پاکستان لانے میں شدید مشکلات سے دوچار ہیں۔درآمدکنندگان کا کہنا ہے کہ حکومت نے انرجی کی درآمدات کو اولین ترجیح دینے کی پالیسی کو برقرار رکھا ہوا ہے، لیکن سولر پینل اور اس کے سازو سامان کو درآمد کرنے کی حوصلہ شکنی کر رہی ہے، جو کہ حکومتی پالیسی کا ایک کھلا تضاد ہے، سولر پینلز حکومت کی انرجی درآمدات میں بڑی کمی کی وجہ بن سکتے ہیں اور طویل المدت میں پاکستان کا انرجی کی مد میں خرچ ہونے والا قیمتی زرمبادلہ بچا سکتے ہیں، تاہم سولرپینل کی درآمدات میں حائل رکاوٹیں پاکستان کو 2030 تک رینیوایبل انرجی کا حصہ 30 فیصد تک لے جانے کے ہدف کو ناممکن بنا سکتی ہیں۔
حکومت نے بجٹ 2024 میں سولر پینل کے مقامی سطح پر مینوفیکچرنگ پلانٹس لگانے کی حوصلہ افزائی کی ہے، تاہم ابتدائی طور پر خام مال درآمد کیا جائے گا، ایسے پلانٹس کی تنصیب پاکستان جیسی چھوٹی معیشتوں کیلیے ابھی تک ناقابل عمل ہے۔
ایکسپریس ٹریبیون سے بات کرتے ہوئے وائس چیئرمین پاکستان سولر ایسوسی ایشن محمد ذاکر علی نے کہا کہ ہم ابھی تک بندرگاہوں سے اپنا درآمدی سامان کلیئر نہیں کراسکے ہیں، مرکزی بینک نے فروری مارچ 2023 میں تاجروں کو کہا تھا کہ وہ ایک سال کی ڈیفر ادائیگی پر سامان درآمد کریں، جس پر تاجروں نے دبئی میں فنانسر ڈھونڈے اور مال درآمد کیا لیکن اب مرکزی بینک نے ہدایت جاری کی ہے کہ ایک سال کے بجائے 6 ماہ کی ڈیفر ادائیگی پر سامان خریدیں اور ادائیگی دبئی کے بجائے براہ راست چین کو کریں۔
انھوں نے کہا کہ حکومت ایک واضح اور طویل المدتی پالیسی کا اعلان کرے، تاکہ ہم آسانی سے اپنا کاروبار چلاسکیں، ریون انرجی کے آپریشن ہیڈ ثاقب زیدی نے کہا کہ اگر حکومت ڈیڑھ سال کی فیول درآمدات کے برابر جو کہ تقریبا 21سے24 ارب ڈالر بنتی ہے، سولر پینلز درآمد کرنے کی اجازت دے دے تو پاکستان کی فیول درآمدات ہمیشہ کیلیے زیرو ہوجائے گی۔
وزیراعظم اور وزیر خزانہ کو لکھے گئے ایک خط میں ایسوسی ایشن نے مینوفیکچرنگ کیلیے رعایات دینے پر شکریہ ادا کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ اس مقصد کو حاصل کرنے کیلیے پاکستان کو عالمی کمپنیوں کے ساتھ مل کر مناسب پالیسی اور ماحول بنانا ہوگا۔