کراچی(قدرت روزنامہ) گزشتہ حکومت کی ٹی ای آر ایف پالیسی پر تنقید سرمایہ کاروں کا اعتماد گھٹانے کے مترادف ہے . اس پالیسی میں ایسا کچھ نہیں تھا کہ جس کی بنیاد پر اس پالیسی کو تنقید کا نشانہ بنایا جائے، اس پالیسی کے نتیجے میں کورونا کے دوران ملازمتوں کو تحفظ ملا، اس پالیسی کے تحت سرمایہ کاروں کو اس شرط پر 5 فیصد کی شرح سود پر قرض دیے گئے تھے کہ وہ مشینری کو اپگریڈ کریں گے، ملازمتوں میں اضافہ کریں گے اور ملکی جی ڈی پی میں اپنا حصہ بڑھائیں گے .
قرضے تجارتی بینکوں کے ذریعے دیے گئے، جو قرض دینے سے پہلے شفاف تحقیقات کرتے ہیں اور اس کے بعد ہی قرض فراہم کرتے ہیں، جہاں سیاسی اثرورسوخ کام نہیں آتا، قرضوں کی تقسیم کے دوران کچھ بھی غلط نہیں کیا گیا، اس کے باجود قرض حاصل کرنے والے افراد کے نام طلب کرنے سے سرمایہ کاروں کا اعتماد متزلزل ہوگا، یہ حکومت، قرض لینے والوں اور عوام تینوں کے لیے یکساں فوائد کی حامل پالیسی تھی، اس اعتماد کو ٹھیس پہنچانے والے اقدامات سے گریز کرنے کی ضرورت ہے .
یہ بھی پڑھیں: تاجر برادری نے ٹی ای آر ایف اسکیم کے آڈٹ کی مخالفت کردی
اگر 400 ارب روپے کے یہ قرض نہ فراہم کیے جاتے تو ٹیکس ریونیو کم ہوجاتا، لوگوں کی ملازمتیں ختم ہوجاتیں، اور معاشی پیداوار پر بھی منفی اثرات مرتب ہوتے، یہ واضح ہے کہ ہم غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنے کے لیے جو کچھ بھی کرسکتے ہیں وہ کر رہے ہیں اور انتہائی منافع بخش منافعے کی پیشکش کر رہے ہیں، جس سے مقامی کاروبار کو نقصان پہنچ رہا ہے .
یاد رکھیں، کوئی بھی معیشت صرف ادھار لیے گئے سرمائے سے پروان نہیں چڑھتی، روزگار کے مواقع پیدا کرنے والے بہت سے سرمایہ کاروں نے ملک چھوڑ دیا ہے اور اپنی رقم پاکستان سے باہر رکھ کر بہت بہتر منافع حاصل کیا ہے، لہٰذا، مقامی کاروباری گروپوں پر تنقید کرنے سے پہلے، ہمیں انتہائی احتیاط برتنی چاہیے، یہ وہ مٹھی بھر لوگ ہیں جو اب بھی “پروجیکٹ پاکستان” پر شرط لگا رہے ہیں، ہمیں ان کا اعتماد برقرار رکھنے کی ضرورت ہے، صرف نجی شعبہ ہی ملک کے نوجوانوں کو بروئے کار لانے کے لیے کافی ملازمتیں پیدا کر سکتا ہے .