پرویز خٹک کے پرانے ساتھیوں سے رابطے، الیکٹیبلز کو ساتھ ملانے کے لیے متحرک


نوشہرہ (قدرت روزنامہ)پاکستان تحریک انصاف پالیمنٹیرینزکے سربراہ اور سابق وزیر دفاع پرویز خٹک نے نئی سیاسی جماعت کے اعلان کے بعد پہلا ہی دن انتہائی مصروف گزارا، انہوں نے پارٹی کی تشکیل پر کام شروع کر دیا ہے اور اہم ملاقاتیں بھی کر رہے ہیں۔قریبی ذرائع بتاتے ہیں کہ پشاور کے علاقے جھگڑا میں اجلاس اور پارٹی کے نام کا اعلان کرنے کے بعد پرویز خٹک نے کچھ اہم سیاسی ملاقاتیں کی ہیں۔ ’پرویز خٹک رات 3 بجے تک نوشہرہ سٹی میں تھے اور مختلف لوگوں سے ملاقات اور میٹنگ کرتے رہے‘۔
یہ بھی بتایا گیا ہے کہ پرویز خٹک سابق دور حکومت کے پرانے ساتھیوں سے بھی رابطے میں ہیں۔ اور امید کی جا رہی ہے کہ آہستہ آہستہ صوبے کے بڑے نام اور الیکٹیبلز بھی ان کے ساتھ شامل ہوں گے۔
پرویز خٹک کس کس سے رابطے میں ہیں؟
پرویز خٹک صوبے میں اپنے دور حکومت میں ہر جماعت کے اراکین کے ساتھ بہتر تعلقات رکھتے تھے اور پارٹی پالیسی سے ہٹ کر اپوزیشن اراکین کو بھی ترقیاتی فنڈز دیتے تھے۔ اس کے علاوہ پی ٹی آئی اراکین کا بھی خیال رکھا جاتا تھا۔قریبی ذرائع بتاتے ہیں کہ 9 مئی کے بعد سے پرویز خٹک کے سابق پارٹی اراکین کے ساتھ رابطے ہیں اور الیکٹیبلز نے ان کے ساتھ چلنے کی حامی بھر لی ہے۔ اور وقت کے ساتھ ساتھ شامل ہوتے جائیں گے۔
پرویز خٹک کے قریبی ساتھی نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ان کی معلومات کے مطابق اکثر سابق اراکین نے سابق وزیراعلیٰ کو ساتھ چلنے کی یقین دہانی کرا دی ہے۔ شوکت یوسف زئی، مشتاق غنی اور دیگر اہم اراکین بھی پرویز خٹک کے ساتھ رابطے میں ہیں۔ مشتاق غنی دبئی میں ہیں اور فی الحال شمولیت کی تردید کر رہے ہیں لیکن واپسی پر وہ اعلان کر سکتے ہیں۔
پرویز خٹک کے انتہائی قریبی اور نوشہرہ کے سینیئر صحافی مشتاق پراچہ بھی اس کی تائید کرتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ کچھ سابق اراکین کوعمران خان کے سیاسی مستقبل کا انتظار ہے۔ صورت حال واضح ہونے کے بعد وہ پرویز خٹک کے ساتھ شامل ہو سکتے ہیں۔
رکاوٹ کیا ہے؟
9 مئی کے بعد پرویز خٹک نے نئی جماعت پر مشاورت کے لیے سابق ساتھیوں سے رابطے کیے تو اکثر نے ساتھ چلنے کی یقین دہانی کرائی۔ ذرائع کا بتانا ہے کہ خیبرپختونخوا میں چند اراکین کے علاوہ اکثریت نے ساتھ چلنے کا وعدہ کیا، لیکن عین وقت پر پیچھے ہٹ گئے۔ جس کی بڑی وجہ عمران خان اور پی ٹی آئی کے مستقبل کے حوالے فیصلے نہ ہونا ہے۔
ذرائع کے مطابق سابق اراکین کو پیغام دیا گیا تھا کہ تحریک انصاف اور پی ٹی آئی پر پابندی لگے گی اور انہیں کھلا میدان مل جائے گا۔ تاہم حالات واضح نہ ہونے کے باعث وہ شمولیت سے گریز کر رہے ہیں۔
’کے پی‘ کے بعد پالیمنٹیرینز پنجاب میں بھی سرگرم ہو گی
نئی پارٹی میں شامل ایک سابق رکن نے وی نیوز کو بتایا کہ اس وقت پرویز خٹک اور ان کی حمایت کرنے والوں کی ترجیح اور فوکس خیبر پختونخوا پر ہے، ابتدائی طور پر پارٹی کی تشکیل اور الیکٹیبلز کو ساتھ ملانا ہے جس پر دن رات کام جاری ہے۔انہوں نے بتایا کہ زیادہ تر کام پرویز خٹک کی ہدایت اور مرضی کے مطابق ہو رہے ہیں اور ان کے صاحبزادے اسحاق خٹک اکثر معمولات کو دیکھ رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پنجاب سے بھی پی ٹی آئی کے روپوش اور پارٹی چھوڑنے والے سابق اراکین اور رہنما بھی پرویز خٹک کے ساتھ رابطے میں ہیں اور اپنی رائے بھی دے رہے ہیں۔انہوں نے دعویٰ کیا کہ پرویز خٹک کے شاہ محمود قریشی اور اسد عمر سے بھی رابطے ہیں۔ تاہم دونوں رہنما پہلے ہی ایسے دعوؤں کی تردید کر چکے ہیں۔ تاہم حالات سے با خبر صحافی مشتاق پراچہ بھی تائید کرتے ہیں۔
ان کا ماننا ہے کہ پنجاب میں پی ٹی آئی پالیمنٹیرینزبنے گی جس میں تحریک انصاف کے بڑے نام شامل ہوں گے۔
نوشہرہ سے مہم کا اغاز
صحافی مشتاق پراچہ نے بتایا کہ پرویز خٹک نے پارٹی کے اعلان کے بعد مہم کا آغاز کر دیاہے جس میں وہ تحریک انصاف کے ووٹرز اور اپنے حمایتیوں کو منانے کی مہم شروع کر رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ گزشتہ روز انہوں نے نوشہرہ میں کارکنان سے گھر گھر جا کر ملاقاتیں کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا۔ وہ کارکنوں سے مل رہے ہیں، ان کی بات بھی سن رہے ہیں اور اپنا موقف بھی پیش کر رہے ہیں۔
مشتاق پراچہ نے مزید بتایا کہ موجودہ حالات میں پی ٹی آئی کے کارکنوں کو منانا بڑا چیلنج ہے جو بات سننے کو بھی تیار نہیں ہیں۔

سبز اور سرخ رنگ کا پارٹی پرچم
باخبر ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ پرویز خٹک نے نئی جماعت کے پرچم کو حتمی شکل دے دی ہے۔ جو پی ٹی آئی سے کچھ زیادہ مختلف نہیں۔ پرچم میں سبز، سرخ اور سفید رنگ شامل ہو گا۔ جس کا مقصد کارکنان کو پیغام دینا ہے کہ ان کی جماعت ہی پاکستان تحریک انصاف ہے۔

انتخابی نشان
قریبی ذرائع کا کہنا ہے پرویز خٹک کی نئی جماعت کو بلے کا نشان نہیں مل سکتا لیکن پرویز خٹک کی کوشش اور خواہش ہے کہ بلے سے ملتا جلتا نشان مل جائے تاکہ تحریک انصاف کے کارکنوں کے لیے قابل قبول ہو اور ان کا ووٹ حاصل کیا جا سکے۔