بلوچستان کے جیلوں میں ڈاکٹرز کی تعیناتی اور ادویات کیلئے فنڈز بڑھانے کی سمری ارسال کردی گئی


کوئٹہ(قدرت روزنامہ)بلوچستان کے جیلوں میں ڈاکٹرز کی تعیناتی اور ادویات کیلئے فنڈز بڑھانے کی سمری ارسال کردی گئی ۔واضح رہے کہ بلوچستان کے 12میں سے 10جیلوں میں قید 3ہزارقیدیوں کیلئے ایک ڈاکٹر نہیں جبکہ ادویات کی مد میں 60لاکھ روپے کے بجٹ پر کٹ لگا کر 30لاکھ کردیاگیاہے ۔ذرائع کے مطابق بلوچستان میں چار سینٹرل اور آٹھ ڈسٹرکٹ جیلیں ہیں جہاں تین ہزار سے زائد افراد قید ہیں۔ ذرائع کے مطابق صوبے کی سب سے بڑی جیل سینٹرل جیل مچھ سمیت ان دس جیلوں میں ڈاکٹرز نہیں ہیں۔حال ہی میں بلوچستان ہائی کورٹ (بی ایچ سی)کے چیف جسٹس نعیم اختر افغان نے مچھ جیل میں ڈاکٹروں کی کمی پر برہمی کا اظہار کیا تھا اور حکام کو فوری طور پر ڈاکٹروں کی تعیناتی کا حکم دیا تھا
۔ان جیلوں میں پیرا میڈیکس ڈاکٹروں کے فرائض انجام دیتے ہیں جس کے نتیجے میں اکثر پیچیدگیاں پیدا ہوتی ہیں۔ بلوچستان حکومت کے مطابق اس وقت جیلوں میں ڈاکٹروں کی سات اور لیڈی میڈیکل آفیسرز (ایل ایم اوز)کی دو آسامیاں خالی ہیں۔ان جیلوں میں طبی عملے کی عدم دستیابی اور ادویات کی کمی ایک سنگین مسئلہ بن چکی ہے۔ 2020 تک محکمہ جیل صوبائی حکومت سے سالانہ 60 لاکھ روپے کی ادویات وصول کر رہا تھا۔تاہم قیدیوں کی تعداد میں اضافے اور ادویات کی قیمتوں میں اضافے کے باوجود صوبائی حکومت نے محکمہ جیل خانہ جات کو ادویات کے لیے دیے جانے والے فنڈز میں تقریبا 50 فیصد کمی کردی ہے۔کوئٹہ جیل جس میں 1100 قیدی ہیں، کو سالانہ 6 لاکھ روپے کی ادویات فراہم کی جا رہی ہیں۔
جیلوں میں طبی سہولیات فراہم کرنے کے بی ایچ سی کے احکامات کے باوجود حکومت ابھی تک جیلوں میں صحت کی دیکھ بھال کو بہتر نہیں کر سکی ہے۔ذرائع نے مزید بتایا کہ ان دس جیلوں میں ڈاکٹروں کی تعیناتی اور ادویات کا کوٹہ بڑھا کر 15 ملین روپے کرنے کی سمری محکمہ داخلہ و صحت کو ارسال کر دی گئی ہے۔جیلوں کے اندر ڈاکٹروں اور ادویات کی کمی نے قیدیوں کے مسائل میں مزید اضافہ کر دیا ہے جن میں سے کچھ برسوں سے ان جیلوں میں پڑے ہیں۔ستم ظریفی یہ ہے کہ حکام نے گزشتہ چند سالوں میں قیدیوں کے لیے ادویات خریدنے کے لیے مختص بجٹ کو 60 لاکھ روپے سے کم کر کے 30 لاکھ روپے کر دیا ہے، کچھ سرکاری ذرائع نے نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کرتے ہوئے ایکسپریس ٹریبیون کو بتایا کہ وہ میڈیا سے بات کرنے کے مجاز نہیں تھے۔تاہم محکمہ جیل خانہ جات کے اہلکاروں نے معلومات کی تصدیق نہیں کی۔