ممنوعہ علاقوں میں داخلے پر آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی دفعہ 3کا اطلاق ہوتا ہے، ملزموں پر ممنوعہ علاقے میں داخلے کی دفعہ کیوں نہیں لگائی گئی؟جسٹس منیب اختر


اسلام آباد(قدرت روزنامہ)سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کیخلاف کیس میں جسٹس منیب اختر نے سوال اٹھاتے ہوئے کہاکہ ممنوعہ علاقوں میں داخلے پر آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی دفعہ 3کا اطلاق ہوتا ہے، ملزموں پر ممنوعہ علاقے میں داخلے کی دفعہ کیوں نہیں لگائی گئی؟
نجی ٹی وی چینل ایکسپریس نیوز کے مطابق فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کیخلاف کیس کی سماعت ہوئی، چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 6رکنی بنچ نے سماعت کی۔جسٹس منیب اختر نے کہاکہ ممنوعہ علاقوں میں داخلے پر آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی دفعہ 3کا اطلاق ہوتا ہے، ملزموں پر ممنوعہ علاقے میں داخلے کی دفعہ کیوں نہیں لگائی گئی، اٹارنی جنرل نے کہاکہ اس حوالے سے ہدایات لے کر آگاہ کروں گا، پاکستان کی تاریخ میں اس سے پہلے ایسا نہیں ہوا، لیاقت حسین کیس میں جرم سویلین نوعیت کا تھا، چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ آپ نے کچھ حقائق سامنے رکھے ہیں، اٹارنی جنرل نے کہاکہ 21ویں آئینی ترمیم میں بھی جرم سویلین نوعیت کا تھا، جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے کہا کہ وہاں صورتحال بالکل مختلف تھی، آئینی ترمیم کرکے فوجی عدالتیں قائم کی گئی تھیں۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ آپ کہہ رہے ہیں ایسا پہلی بار ہوا عوام نے فوجی تنصیبات پر حملے کئے، درخواست گزاروں نے جو نکات اٹھائے ان پر بھی بات کریں، چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ سیکشن 7کے تحت ملٹری کورٹس میں سزا کتنی ہے؟اٹارنی جنرل نے کہاکہ سیکشن 7 اور 9 کے تحت ملٹری عدالتوں میں سزا 2سال قید ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ کیا یہی سزا زیادہ سے زیادہ بنتی ہے، اٹارنی جنرل نے کہاکہ جی، یہی سزا بنتی ہے، چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ عام عدالتوں میں تو پھر سزا زیادہ بنتی ہے، کیا فوجی عدالتوں کے فیصلے میں تفصیلی وجوہات شامل ہوتی ہیں؟اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت حکم دے تو وجوہات شامل کردی جائیں گی۔
جسٹس مظاہر نقوی نے کہاکہ فوجی عدالت کے فیصلے میں صرف لکھا جات ہے جرم ثابت ہوا یا نہیں، اٹارنی جنرل نے کہاکہ فوجی عدالت کے فیصلے کیخلاف اپیل میجر جنرل رینک افسر سنتے ہیں،اپیل کیخلاف آئینی دائرہ اختیار میں ہائیکورٹ سے رجوع کیا جاسکتا ہے ۔
چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کہ کیا فوجی عدالتوں کے فیصلوں کیخلاف اپیل کرنے میں آئینی ممانعت ہے؟21ویں آئینی ترمیم میں اپیل کا دائرہ محدود کیا گیا تھا جواب نہیں ہے ، 9مئی جیسا واقعہ میری یادداشت میں تو پہلے کبھی نہیں ہواتھا، درخواست گزار بھی ٹرائل چاہتے ہیں لیکن مسئلہ شفافیت کا ہے، اٹارنی جنرل نے کہاکہ کئی فورمز میں اپیل محکمہ کے اندر اور بعد میں معاملہ عدالت جاتا ہے ، جسٹس مظاہر نقوی نے کہاکہ محکمہ مال و دیگر اداروں میں سزائیں نہیں ہوتیں،جسٹس عائشہ ملک نے کہاکہ محکمانہ اپیلوں پر کارروائی خفیہ نہیں، پبلک ہوتی ہے ، چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ موجودہ مقدمہ میں کیس فوجداری اور معاملہ بنیادی حقوق کا ہے ۔