درخواست گزار نے اپنی درخواست میں مؤقف اختیار کیا تھا کہ محکمہ تعلیم کے تدریسی وغیر تدریسی کیڈر میں 8551 خالی اسامیوں پر سرکاری جواب دہندگان بھرتی کے عمل کو حتمی شکل دینے جارہے ہیں لیکن موجودہ حکومت اپنی آئینی مدت پوری کرنے والی ہے اور اس مختصر مدت میں ان عہدوں کو پر کرنا قطعی نا ممکن ہے . دوران سماعت عدالت نے کہا کہ ایک طرف بلوچستان شدید مالی بحران کا شکار ہے دوسری طرف بھرتیاں ہورہی ہیں ،محکمہ تعلیم کو بھی گورننس کے سنگین بحرانوں کا سامنا ہے،صوبے کے سالانہ بجٹ کا 75فیصد سے زائد صرف تنخواہوں اور پنشن پر خرچ ہور ہا ہے . عدالت کا کہنا تھا کہ صوبائی بجٹ کا بڑا حصہ حکومت بلوچستان کے محکموں میں مکمل طور پر امتیازی بھرتیوں اور تقر ریوں کی شکل میں غیر ترقیاتی اخراجات پر خرچ ہو رہا ہے، یہ امر بھی پریشان کن ہے کہ صوبے میں 3500 سے زائد اسکول غیر فعال ہیں، محکمہ تعلیم نان فنکشنل اسکولوں کو فعال کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہوچکا ہے جب کہ ان اسکولوں میں اساتذہ بھی تعینات تھے اور تنخواہیں بھی وصول کر رہے تھے، مختلف ٹیچر یونینز اور ایسو سی ایشن کے دباؤ پر ان اسکولوں کو ٹائم اسکیل پروموشن دے دی گئی . عدالت نے محکمہ سے ٹیچروں کی کل تعداد، طلبا کی کل تعداد، اسکول چھوڑ جانے والے طلبا کی کل تعداد،نان ٹیچنگ اسٹاف کی کل تعداد، نان فنکشنل اسکولوں کی کل تعداد اور اسکولوں کے مقامات کی تفصیلات طلب کر تے ہوئے سماعت 17اگست تک ملتوی کردی . . .
کوئٹہ(قدرت روزنامہ) بلوچستان ہائیکورٹ نے محکمہ تعلیم میں بھرتیوں کا عمل روکنے کا حکم دے دیا . بلوچستان ہائیکورٹ کے جسٹس محمد کامران خان ملاخیل اور جسٹس سردار احمد حلیمی پر مشتمل بنچ نے آئینی درخواست کی سماعت کے دوران فیصلہ سنایا اور عدالت نے سیکرٹری محکمہ تعلیم کو حکم دیا کہ وہ محکمہ تعلیم میں بھرتیوں کے جاری عمل کے نتائج کا اعلان نہ کریں .
متعلقہ خبریں