گوادر میں ایئر پورٹ اور یونیورسٹی جیلے معاملات پر نام نہاد انقلابی خاموش ہیں ،حق دو تحریک


گوادر (بیورورپورٹ) گوادر ایئرپورٹ کا نام بابائے بلوچستان میر غوث بخش بزنجو کے نام سے منسوب کیا جائے اور پاک چائنا یونیورسٹی گوادر میں قائم کی جائے۔ حق دو تحریک بلوچستان کا مطالبہ۔ لاہور میں پاک چائنا گوادر یونیورسٹی کے قیام اور گوادر ایئرپورٹ کا نام فیروز خان نون کے نام پر رکھنے کے لئے قومی اسمبلی میں منظور ہونے والی قراردادوں کے خلاف حق تحریک بلوچستان کی جانب سے شہدائے جیونی چوک پر احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔ احتجاجی مظاہرہ سے خطاب کرتے ہوئے حق دوتحریک کے قائد مولانا ھدایت الرحمن اور مرکزی چیئرمین حسین واڈیلہ سمیت دیگر مقررین نے کہا کہ گوادر ایئرپورٹ کا نام بلوچستان کے اکابرین اور اہم شخصیت کے نام پر رکھنے کی بجائے اسے کسی اور کے نام سے منسوب کرنا بلوچ شناخت کے خلاف سازش سمجھتے ہیں جب کہ سی پیک کا مرکز گوادر ہے اور یونیورسٹی لاہور میں بنانے کی قرارداد منظور کی گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت قومی اسمبلی میں بلوچوں کے عظیم انقلابی رہنمائ سردار اختر مینگل سمیت بلوچستان سے تعلق رکھنے والے درجن بھر ایم این اے موجود ہیں لیکن ان کی موجودگی میں گوادر ایئرپورٹ کے نام اور لاہور میں یونیورسٹی کے قیام کی قراردادوں کا آسانی سے منظور ہونا انقلابیوں اور نام نہاد ایم این اے کے لئے لمحہ فکریہ ہونا چاہیئے تھا لیکن وہ بل کے پراسس کے دوران مجرمانہ خاموشی مرتکب ہوئے اور جب قراردادیں منظور ہوئی ہیں تو بلوچستان اور گوادر ان کو یاد آیا ہے مگر مچھ کے آنسو رو کر عوام کو بیوقوف بنانا چاہتے ہیں لیکن ان کا مکروہ چہرہ آشکار ہوگیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سی پیک سے گوادر کو ایک پتھر کا بھی فائدہ نہیں ملا ہے موجودہ یونیورسٹی کے لئے عوام نے احتجاج کیا جس کے بعد گوادر یونیورسٹی قائم کردی گئی ہے۔ سی پیک کے ثمرات اب تک اہلیان گوادر یا بلوچستان کو نہیں ملے ہیں اور حکمران سی پیک سی پیک کرکے عوام کو سبز باغ دکھا رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ گوادر پورٹ کے قیام کے بعد گوادر میں تعلیمی اداروں کے قیام کی بجائے یہاں پر چار شراب خانہ قائم کئے گئے ہیں اور پانچویں شراب خانہ کے قیام کی تیاری ہورہی ہے گوادر کے نوجوانوں کو تعلیمی اداروں کی بجائے شراب خانہ دیئے جارہے ہیں تاکہ ان کی زندگیاں خراب کی جائیں۔انہوں نے کہا کہ سردار اختر مینگل کو وڑھ کے سنگ مرمر کے پہاڑوں سے فرصت ملے گی وہ گوادر کے بارے میں سوچیں گے یونیورسٹی گوادر میں بنے یا نہ بے اور ایئرپورٹ کا نام کسی اور کے نام منسوب کیا جائے قوم پرست قیادت کو اس سے کوئی سروکار نہیں وڑھ مسئلہ پر احتجاج کرسکتے ہیں لیکن استحصالی عزائم کو روکنے کے لئے قوم پرستوں کو جرات نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ حق دو تحریک جمہوری مزاحمت پر یقین رکھتی ہے گوادر سے لیکر بلوچستان کے دیگر علاقوں پر ٹھیکیدار ٹولہ اقتدار کے مزے لوٹ رہا ہے گوادر عوام کی نمائندگی چالیس سالہ ٹولہ کررہا ہے جن کا کام زمینیں ہتھیانہ ہے اور اپنا مستقبل سنوارنا ہے اگر حق دوتحریک کو نمائندگی ملی ڈاکٹر مالک کی طرح زمینیں سرکاری نہیں کرینگے بل کہ سیاسی اشرافیہ سے زمینیں لے کر غریب عوام کو دینگے۔ انہوں نے کہا کہ 26 دسمبر کا واقعہ کبھی بھی فراموش نہیں کرسکتے اور نہ ہی ان کرداروں کو معاف کیا جائے گا جنہوں نے رات کی تاریکی میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی گاڑیوں میں بیٹھ کر مخبری کی۔ انہوں نے کہا کہ اسلام آباد میں بیٹھا مائنڈ سٹ بلوچستان کے لئے قابل قبول پالیسی بنانے کے لئے تیار نہیں اور وہ بلوچستان کے لئے متعصب سوچ رکھتا ہے
جس کی مثال گوادر کے نام پر لاہور میں یونیورسٹی اور گوادر ایئرپورٹ کا نام کسی غیر کے نام پر رکھنے کی قراردادوں سے اخذ کیا جاسکتا ہے، کیا بلوچستان یا گوادر نے تعلیمی میدان میں اتنی ترقی کی ہے کہ یہاں پر تعلیمی ادارے بنانے کی ضرورت نہیں یا بلوچستان میں ایسا کوئی بھی کوئی بھی قابل ذکر شخصیات نہیں ہیں کہ ان کے نام پر ایئر پورٹ کا نام رکھا جائے؟ انہوں نے کہا کہ گوادر کو اس وقت تعلیمی میدان میں آگے جانے کی ضرورت ہے تاکہ یہاں کا نوجوان سی پیک میں حصہ لے اور فائلٹ بن کر گوادر ایئرپورٹ سے جہاز اڑائے مگر حکمرانوں کی نیت میں فتور ہے اور اس فتور کی وجہ سے گوادر کے لوگ اس ترقی یافتہ دور میں بھی بجلی کے کھمبوں اور ٹرانس کے لئے ترس رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حق دوتحریک گوادر کے نام پر لاہور میں یونیورسٹی کے قیام اور گوادر ایئرپورٹ کا نام فیروز خان نون کے نام سے منسوب کرنے کی قراردادوں کی مذمت کرتی ہے یہ ہمیں کسی بھی صورت قبول نہیں۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ گوادر ایئرپورٹ کا نام بابائے بلوچستان میر غوث بخش بزنجو کے نام سے منسوب کیا جائے اور پاک چائنا گوادر یونیورسٹی گوادر میں ہی قائم کی جائے۔ احتجاجی مظاہرہ سے اقبال مولابخش اور بابر شہزاد نے بھی خطاب کیا۔