سرکاری اسپتالوں میں سہولیات کی کمی دور کرکے ڈاکٹروں اور عملے کو تحفظ دیا جائے، ینگ ڈاکٹرز

کوئٹہ(قدرت روزنامہ) ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن بلوچستان کی جانب سے سرکاری ہسپتالوں میں ادویات ، مشینری ،سیکورٹی اور دیگر ضروری سہولیات کی کمی کی وجہ سے آئے روز مریضوں کے لواحقین کی طرف سے ڈاکٹروں کے ساتھ پیش آنے والے تشدد کے واقعات پر محکمہ صحت کی خاموشی اور سہولیات کے فقدان کے سبب مریضوں کے علاج میں دشواری کا ملبہ ڈاکٹروں پر ڈالنے کیلئے غیر ضروری اور غیر منصفانہ انکوائری کمیٹیوں کے بنائے جانے کو ڈاکٹروں کی تذلیل سمجھتے ہیں اور اس کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہیںترجمان کا کہنا ہے کہ ہم محکمہ صحت سے سوال کرتے ہیں کہ ان انکوائری کمیٹیز کے ذریعے ہسپتالوں میں ڈاکٹرز اور مریضوں کو درپیش تمام سہولیات کے فقدان کو کیوں سامنے نہیں لایا جاتا جن کی وجہ سے یہ تمام واقعات رونما ہوتے ہیں، مزید یہ کہ مریضوں اور ان کے لواحقین کی جانب سے ڈاکٹروں پر تشدد کا نوٹس کیوں نہیں لیا جاتا اور ان کیلئے سزا جزا کا کوئی قانون کیوں نہیں بنایا جاتا، اس طرح کی انکوائری کمیٹیز کو ڈاکٹرز کیلئے تذلیل ،ذہنی تشدد اور ان کا قیمتی وقت ضائع کرنے کے مترادف سمجھتے ہیں بلوچستان کے سرکاری ہسپتالوں میں جہاں 20 روپے کی سرنج تک دستیاب نہیں ہوتی ،سستی اور مہنگی ادویات، خون کے ٹیسٹ کوئی بھی سہولت موجود نہیں ہے، صوبے کے دو بڑے سرکاری ہسپتال، سول ہسپتال اور بی ایم سی ہسپتال جہاں بلوچستان بھر کے غریب مریض علاج کیلئے آتے ہیں وہاں گائنی وارڈ کے آپریشن تھیٹر میں ایک ہی آپریشن ٹیبل پر سینکڑوں مریضوں کا آپریشن کیا جاتا ہے، آپریشن تھیٹر میں سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے مریضوں کا ایمرجنسی بنیادوں پر آپریشن کرنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے، آپریشن تھیٹر میں استعمال ہونے والے ہزاروں کی دوائی نہ ہونے کی وجہ سے لواحقین کو ادویات باہر کے میڈیکل سٹور سے لانی پڑتی ہیں ، ایسی صورتحال میں جہاں بلوچستان کے لوگ ان دو سرکاری ہسپتالوں میں اپنا علاج کروانے کیلئے آتے ہیں، ان محدود وسائل میں ڈاکٹرز مریضوں کو بلا تعطل علاج معالجہ کی سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن ہسپتال انتظامیہ اور حکومتی نااہلی کا خمیازہ بعد میں ڈاکٹروں کو انکوائری کی صورت میں بھگتنا پڑتا ہے، پچھلے ایک مہینے میں 10 ایسے واقعات پیش آئے ہیں جہاں ہسپتال میں ادویات کی عدم دستیابی اور ہسپتال کی لیبارٹری میں ٹیسٹ نہ ہونے کی وجہ سے مریض کے لواحقین نے ڈاکٹروں پر تشدد کیا لیکن محکمہ صحت کی جانب سے کسی ایک واقعہ کا نہ نوٹس لیا گیا اور نہ ہی ایسے عناصر کے خلاف کوئی کاروائی عمل میں لائی گئی، الٹا ہر بار غیر ضروری انکوائری بناکر ڈاکٹروں کو اذیت دینے کی کوشش کی گئی، سوشل میڈیا پر کوئی بھی میسج ڈاکٹروں کے خلاف چلتا ہے تو محکمہ صحت کی جانب سے اس پر انکوائری کا آرڈر جاری کردیا جاتا ہے لیکن غیر ضروری اور چند پیسوں کیلئے الزام لگانے والے لوگوں کے خلاف غلط الزام لگانے پر کوئی کاروائی نہیں ہوتی ، کیا آج تک کسی ایک بھی مریض یا متوفی کا طبی آڈٹ ہوا ہے؟ یا اس کی مورٹیلٹی میٹنگ ہوئی ہے جس سے اس بات کا اندازہ لگایا جاسکے کہ مریض کے علاج میں دشواری یا مریض کے موت کی وجہ ڈاکٹروں کی غفلت کی وجہ سے ہوئی ہے یاہسپتال میں سہولیات کے فقدان کی وجہ سے ہوئی؟، محکمہ صحت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اگر آپ کا مقصد لوگوں کو انصاف فراہم کرنا ہے تو اس طرح کی انفرادی انکوائریاں بناکر محکمہ صحت ڈاکٹروں کی پگڑیاں اچھالنے کی بجائے بلوچستان بھر کے سرکاری ہسپتالوں کا 5سالہ طبی آڈٹ کروائے .

.

.

متعلقہ خبریں