ڈیوٹی جج ایڈیشنل سیشن جج فرخ فرید بلوچ کے روبرو ملزمہ پیش ہو گئی جب کہ پولیس نے بھی عدالت کے سامنے مقدمے کا ریکارڈ پیش کیا . دوران سماعت متاثرہ بچی کی والدہ بھی وکیل کے ہمراہ عدالت میں پیش ہوئی . ملزمہ کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ سومیہ عاصم جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوئی . میں نے آج صبح اعتراض عدالت کے سامنے رکھا کہ جے آئی ٹی کی رپورٹ منگوا لیں . ہم نے پورا کیس جے آئی ٹی کے سامنے پیش کیا . میں نے بھی پولیس ریکارڈ دیکھا . انہوں نے ہمارا بیان صرف یہ لکھا کہ میں نے تشدد نہیں کیا . وکیل نے بتایا کہ ہم نے بار بار ان کو کہا بچی واپس لے جائیں . ہمارے پاس ویڈیوز کے ثبوت بھی موجود ہیں . بچی اُدھر بس اسٹینڈ پر رہی، وہاں جوس پیا، بیٹھی رہی، ٹھیک رہی . یہ ثبوت تفتیشی افسر کی جانب سے ریکارڈ پر نہیں رکھے گئے . جج نے ریمارکس دیے کہ آپ کے دفاع میں جو بھی ثبوت ہیں وہ آپ تفتیش میں سامنے لا سکتے ہیں . عدالت نے پولیس سے استفسار کیا کہ کیا ملزمہ کا بیان ریکارڈ پر لکھا ہے ؟ ، جس پر ملزمہ کا لکھا ہوا بیان عدالت کے سامنے پیش کردیا گیا . دلائل دیتے ہوئے ملزمہ کے وکیل نے عدالت کو مزید بتایا کہ ویڈیو میں آپ دیکھیں بچی ٹھیک نظر آرہی ہے ایف آئی آر میں جو لکھا ایسا کچھ نہیں . 3 گھنٹے بچی اڈے پر بس کے انتظار میں رہی . جج نے استفسار کیا کہ بچی کب گئی، میڈیکل کب ہوا ؟ ، جس پر وکیل نے بتایا کہ بچی 23 جولائی کو گئی اور میڈیکل 24 کو ہوا ہے . 25 جولائی کی ایف آئی آر ہے . 3 گھنٹے بچی ٹھیک ٹھاک تھی سر کو بھی کوئی مسئلہ نہیں تھا . یہ بچی یہاں ہمارے پاس رہی تو اس دوران گھر بھی گئی ہے . ایف آئی آر کا 70 فیصد میں پڑھ چکا ہوں یہاں کچھ بھی ثبوت نہیں . ہم نے میاں جی ہوٹل کی بھی ایک ویڈیو لی ہے جہاں اور ایک کریکٹر بھی ہے . وکیل نے مطابق جہاں بچی کی ماں ماتم شروع کرتی ہے اور یہ کہانی وہاں سے شروع ہوتی ہے . کورٹ سے پہلے میڈیا ٹرائل ہوتا ہے، ہمارا میڈیا ٹرائل ہوا ہے . عدالت ریکارڈ منگوا لے میں کل دلائل دے دوں گا . ملزمہ کے وکیل کے دلائل مکمل ہونے پر پراسیکیوٹر نے اپنے دلائل کا آغاز کیا اور عدالت کو بتایا کہ انہوں نے کہا ہمیں تفتیش کا حصہ نہیں بنایا گیا حالانکہ خود ہی انہوں نے بتایا ان کا بیان ریکارڈ ہوا . تفتیش افسر کو ہدایات نہیں دی جا سکتیں کہ اس طرح تفتیش کریں اس طرح نہ کریں . انٹیلی جنس ایجنسیز کو تفتیش کا حصہ نہ ا ہونے کے حوالے سے یہ متعلقہ فورم پر جا سکتے ہیں . پراسیکیوٹر نے بتایا کہ جو ویڈیو انہوں نے جو فرضی دکھائی یہ سب خود ہی کہہ رہے ہیں یہ ہو رہا ہے یہ نہیں ہو رہا . جتنے کرمنلز ہیں وہ کہیں گے کہ خواتین سے جرائم کرائیں ضمانتیں ہو جائیں گی . یہ الزام لگا رہے ہیں ہم بلیک میل کیوں ہوئے ؟ یہ پڑھی لکھی فیملی ہے کیوں پیسے دیے ؟ . عدالت نے ہدایت کی کہ متعلقہ شواہد بتائے جائیں، جس پر وکیل مدعی نے کہا کہ انہوں نے آج تک میڈیکو لیگل رپورٹ چیلنج نہیں کی . اتناظلم کوئی والدین نہیں کر سکتے . عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد جج کی اہلیہ ملزمہ سومیہ عاصم کی ضمانت خارج کردی . جس کے بعد ملزمہ کی گرفتاری کے لیے عدالت کے باہر پولیس موجود ہے، تاہم وکلا کا کہنا تھا کہ ہم نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کرنا ہے، آپ گرفتار نہ کریں . اس دوران پولیس اور وکلا کے درمیان بحث ہوئی . ملزمہ سومیہ عاصم کمرہ عدالت میں وکلا سے بات کرتے ہوئے رو پڑیں . بعد ازاں جج نے کمرہ عدالت خالی کرنے کا حکم دیا جب کہ اسلام آباد پولیس نے مزید نفری طلب کرلی اور ملزمہ سومیہ عاصم کو عدالتی حکم پر گرفتار کرلیا . . .
اسلام آباد(قدرت روزنامہ) مقامی عدالت نے کم عمر گھریلو ملازمہ رضوانہ پر تشدد کیس میں جج کی اہلیہ ملزمہ سومیہ عاصم کی ضمانت خارج کردی، جس کے بعد پولیس نے ملزمہ کو گرفتار کرلیا . ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ اسلام آباد میں رضوانہ تشدد کیس میں ملزمہ کی درخواست ضمانت پر سماعت ہوئی .
متعلقہ خبریں