پولیس لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے کچھ کرتی ہی نہیں، سندھ ہائی کورٹ
کراچی(قدرت روزنامہ) لاپتا شہریوں کی بازیابی سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران عدالت نے ریمارکس دیے ہیں کہ پولیس لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے کچھ کرتی ہی نہیں ہے۔جسٹس نعمت اللہ پھلپوٹو کی سربراہی میں جسٹس مسز کوثر سلطانہ حسین پر مشتمل سندھ ہائی کورٹ کے 2 رکنی بینچ کے روبرو اشرف مینگل سمیت دیگر شہریوں کی بازیابی سے متعلق درخواستوں کی سماعت ہوئی، جس میں عدالت نے پولیس کو لاپتا افراد کی بازیابی کے اقدامات کرنے کا حکم دیدیا۔
دوران سماعت جسٹس نعمت اللہ پھلپوٹو نے ریمارکس دیے کہ پولیس لاپتا افرادکی بازیابی کے لیے کچھ کرتی ہی نہیں۔ پولیس کچھ کرتی ہی نہیں، لوگ عدالتوں سے بھی مایوس ہوچکے۔ جب کچھ ہوتا ہی نہیں تو سائلین نے عدالت آنا ہی چھوڑ دیا ہے۔ انہوں نے تفتیشی افسر پر اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ وہی پرانی رپورٹس اٹھا کر لے آتے ہیں۔
جسٹس نعمت اللہ پھلپوٹو نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ لوگ پریشان ہیں، ہم بھی پولیس سے مایوس ہوچکے۔ تفتیشی افسر نے بتایا کہ اشرف مینگل خیبر پختون خوا کے کسی حراستی مرکز میں قید نہیں ہے۔ عدالت نے درخواست گزار کی عدم حاضری پر سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کردی اور پولیس کو لاپتا افرادکی بازیابی کے اقدامات کرنے کا حکم دیدیا۔
دریں اثنا لانڈھی اور لائنز ایریا سے 2 شہریوں کے لاپتا ہونے پر اہل خانہ نے سندھ ہائیکورٹ سے رجوع کرلیا۔ لانڈھی سے لاپتا ہونے والے شخص کے بیٹے نے درخواست میں مؤقف اختیار کیا کہ میرے والد اسلم پرویز کو لانڈھی کے علاقے سے حراست میں لیا گیا۔ ان کی عمر 60 سال ہے اور وہ شوگر کے مریض ہیں۔ دوسری درخواست میں بھائی نے مؤقف اپنایا کہ رومان ریحان کو اے ٹی سی کورٹ کے باہر سے حراست میں لیا گیا۔ درخواستوں میں عدالت سے استدعا کی گئی ہے کہ گمشدہ افراد کو بازیاب کروایا جائے۔