حکومت کے آخری 6 ماہ، ترقیاتی اخراجات کا 90 فیصد ارکان پارلیمنٹ کی اسکیموں پر خرچ


اسلام آباد(قدرت روزنامہ)وزیر اعظم شہباز شریف کی سبکدوش ہونے والی حکومت نے اپنے اقتدار کے آخری 6ہفتوں کے دوران پبلک سیکٹر کے کل ترقیاتی اخراجات کا 99 فیصد دیگر اہم منصوبوں پر اخراجات کو روک کر اراکین پارلیمنٹ کی اسکیموں پر خرچ کیا۔یکم جولائی کو وفاقی حکومت نے پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام (PSDP) کے تحت 10.5 کھرب روپے خرچ کیے۔ اس میں سے 10.4 کھرب روپے یا 99 فیصد اخراجات ارکان پارلیمنٹ کی تجویز کردہ اسکیموں پر ہوئے۔
مجموعی طور پر وزارت منصوبہ بندی نے 129 ارب روپے کے اخراجات کی منظوری دی تھی، جس میں ارکان پارلیمنٹ کی اسکیموں کیلیے 61.3 ارب روپے بھی شامل تھے۔ لیکن 129 ارب روپے کی اجازتوں میں سے اصل اخراجات 10.5 کھرب روپے تھے۔بجٹ میں ترقیاتی مختص کرنے کے بعد، وزارت منصوبہ بندی وزارت خزانہ کی طرف سے مقرر کردہ سہ ماہی کی حدوں کی بنیاد پر اجازت کے احکامات جاری کرتی ہے۔ لیکن رقم اس وقت تک خودبخود خرچ نہیں ہوتی جب تک کہ یہ وزارت خزانہ کے چیک سے گزر نہ جائے۔
وزارت منصوبہ بندی کے 129 ارب روپے کے اجازت کے احکامات کے خلاف موجودہ مالی سال 2023-24 کے دوران اصل اخراجات اب تک بمشکل 8.2 فیصد تھے۔ پارلیمنٹ کے اراکین کی طرف سے تجویز کیے جانے والے منصوبوں نے قومی اسمبلی کی تحلیل سے پہلے اس امید پر رفتار پکڑی کہ حکومت ووٹرز کو متاثر کر سکتی ہے۔
تاہم گزشتہ مالی سال میں 116 ارب روپے اور گزشتہ 40 دنوں کے دوران 10.4 ارب روپے مختص کرنے کے باوجود سبکدوش ہونے والی حکومت نومبر میں ہونے والے عام انتخابات میں حصہ لینے کے حوالے سے ابھی تک پراعتماد نہیں۔پائیدار ترقیاتی اہداف (SDGs) کے لیے 90 ارب روپے، جو کہ پارلیمنٹرینز کی سکیموں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ سبکدوش ہونے والی حکومت پہلی سہ ماہی کے دوران پوری رقم جاری کرنا چاہتی تھی۔ یہ رقم سالانہ بجٹ کے 68 فیصد کے برابر تھی۔ یہ وزارت خزانہ کی ہدایات کی خلاف ورزی ہے۔
وزارت خزانہ کے رہنما خطوط کے مطابق پہلی سہ ماہی میں مجموعی طور پر سالانہ بجٹ کا 15 فیصد استعمال کیا جا سکتا ہے لیکن وزارت نے خود پارلیمنٹیرینز کی سکیموں کی حد تک اس شق کو مستثنیٰ قرار دیا۔ الیکشنز ایکٹ 2017 میں ترامیم کے بعد نگران حکومت کو اب جاری سکیموں پر خرچ کرنے کا اختیار مل گیا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ 61.3 ارب روپے کے ایس ڈی جیز کی اجازت میں سے جو رقم بچ گئی ہے، وہ عبوری مدت کے دوران خرچ کی جائے گی۔ ارکان پارلیمنٹ کی سکیموں کے لیے رقم دیگر اہم منصوبوں کی لاگت پر دی گئی۔ 950 ارب روپے کے کل سالانہ بجٹ میں سے سہ ماہی ترقیاتی اخراجات کی حد 15 فیصد یا 131 ارب روپے کے مقابلے میں دیگر منصوبوں پر کوئی خاص خرچ نہیں کیا گیا۔
گزشتہ ماہ وزارت خزانہ نے ان فنڈز کے اجراء کے لیے گائیڈ لائنز جاری کی تھیں۔ وزارت خزانہ نے پہلی سہ ماہی میں سالانہ فنڈز کا 15 فیصد، دوسری سہ ماہی میں مزید 20 فیصد، تیسری سہ ماہی میں 25 فیصد اور باقی 40 فیصد رواں مالی سال کی آخری سہ ماہی میں جاری کرنے کی اجازت دی تھی۔
مالی سال قومی اسمبلی نے پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام (پی ایس ڈی پی) کے لیے 950 ارب روپے کی منظوری دی تھی جس میں پارلیمنٹیرینز کی سکیموں کے لیے 90 ارب روپے بھی شامل تھے۔ اس مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں بہت سے اہم منصوبے متاثر ہوئے۔ مثال کے طور پر پاکستان ریلوے کا رواں مالی سال کا ترقیاتی بجٹ 33 ارب روپے ہے۔
وزارت منصوبہ بندی نے اخراجات کے لیے 1.5 ارب روپے کی منظوری دی لیکن ریلوے کے منصوبوں کیلئے حقیقی اخراجات صفر تھے۔ سندھ کے ضلع نواب شاہ میں اتوار کو حویلیاں جانے والی ہزارہ ایکسپریس کی 10 بوگیاں پٹڑی سے اترنے کے نتیجے میں 30 افراد جاں بحق اور 80 سے زائد زخمی ہوگئے۔
پاکستان ریلوے نے سندھ میں ہزارہ ایکسپریس حادثے کی ابتدائی تحقیقات کی اپنی مشترکہ رپورٹ مرتب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ٹرین حادثے کی وجہ سول اور مکینیکل محکموں کی نااہلی ہے۔ ایکسپریس ٹربیون میں ایک خبر شائع ہوئی جس میں کہا گیا ہے کہ رپورٹ ٹریک ٹوٹ گیا جبکہ فش پلیٹیں نہیں لگائی گئیں۔ اس کے علاوہ خراب پہیے اور ٹریکس بھی حادثے میں اہم کردار ادا کر رہے تھے۔
نیشنل ہائی وے اتھارٹی کو گزشتہ ماہ 37.4 بلین روپے خرچ کرنے کا اختیار دیا گیا تھا لیکن اصل اخراجات صفر تھے۔ این ایچ اے کا سالانہ بجٹ 156.5 ارب روپے ہے، وزیراعظم کے مختلف اقدامات کے لیے سبکدوش ہونے والی حکومت نے بجٹ میں 80 ارب روپے مختص کیے تھے۔ لیکن حکومت کے آخری 40 دنوں کے دوران کوئی خرچ نہیں ہوا، اہم وزارتوں کو بھی اخراجات کے لیے رقم نہیں مل سکی، حالانکہ وزارت منصوبہ بندی نے اجازت کے احکامات جاری کیے تھے۔
ہائر ایجوکیشن کمیشن کے 59.7 ارب روپے کے سالانہ بجٹ کے مقابلے میں وزارت منصوبہ بندی نے 5 ارب روپے کی منظوری جاری کی، لیکن اخراجات 31.3 ملین روپے رہے۔