سینئر تجزیہ کار حامد میر نےکہا کہ جس قومی اسمبلی نے یہ قانون پاس کیا تھا وہ تو ختم ہوچکی ہے اب اس قانون کے خلاف کوئی سیاسی پارٹی جو ہے وہ تو جاسکتی ہے سپریم کورٹ میں لیکن وہ لوگ جنہوں نے اس کو منظور کیا تھا وہ نہیں جاسکتے اور اس پر آئینی ماہرین کا کہنا تھا کہ صدر نے اس پر دستخط تو کردیئے ہیں لیکن سپریم کورٹ اس کو کالعدم قرار دے سکتی ہے کیونکہ یہ آئین سے متصادم ہے . اور سپریم کورٹ نے اپنے آرڈر میں بھی اسے آئین سے متصادم قرار دیاہے . اسمبلی سے ایک ایک دن میں 122 قانون بھی منظور کئے گئے ہیں اور یہ سارے قانون جو ہیں یہ سارے سپریم کورٹ میں نہیں جائیں گے لیکن ان میں سے بہت سے قوانین سپریم کورٹ میں چیلنج ہورہے ہیں . یہ میرا خیال ہے شروعات ہے موجودہ چیف جسٹس ستمبر میں ریٹائر ہوں گے تو ابھی ان کے پاس کچھ دن اور باقی ہیں اور لگ یہ رہا ہے کہ کچھ اور فیصلے بھی آسکتے ہیں . اور جو قانون سازی ہوئی ہے قومی اسمبلی میں سپریم کورٹ نے ان فیصلوں کو کالعدم قرار دینے کا سلسلہ شروع کردیا ہے تو اس سے تاثر یہ پیدا ہوگا کہ وہ قومی اسمبلی جس سے کہ قوانین منظور ہوئے ہیں اور چار ماہ پہلے تک لگ یہ رہا تھا کہ سپریم کورٹ اورپارلیمنٹ میں کھلم کھلا محاذ آرائی ہورہی ہے لیکن اس میں پھر کمی آگئی تھی تاہم اب جب قومی اسمبلی ختم ہوگئی ہے تو لگ یہ رہا ہے کہ سپریم کورٹ کی طرف سے ایک فیصلہ سنا کر پیغام دیا گیا ہے کہ ہم باقی قوانین کو بھی کالعدم قرار دے سکتے ہیں . . .
کراچی (قدرت روزنامہ) سپریم کورٹ نے ریویو آف آرڈرز اینڈججمنٹ ایکٹ کالعدم قرار دیدیااس پر جیو کی خصوصی نشریات میں گفتگو کرتے ہوئے تجزیہ کاروں نے کہا ہے کہ مقننہ اور عدلیہ کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوسکتا ہے ، اس کی ٹائمنگ بہت اہم ہے اور یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس سے بہت ساری سازشی تھیوریز جنم لے سکتی ہے، میاں نواز شریف کی نااہلیت کو اہلیت میں بدلنے کا جو راستہ تھا وہ روک دیاگیا، اس فیصلے میں بہت سے قانونی سقم ہے پہلا قانونی سقم تو یہ کہ جس بینچ نے یہ فیصلہ کیا ہے وہ بینچ ہی Illegal Constitute ہوا ہے، پارلیمان کی غیر موجودگی کا ایک طرح سے فائدہ اٹھایا گیا ہے،خصوصی نشریات میں سربراہ پلڈاٹ احمد بلال محبوب،سینئر تجزیہ کار حامد میر، ایڈیٹر انویسٹی گیشن دی نیوز انصار عباسی،سابق اٹارنی جنرل عرفان قادر،سابق وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ،سینئر تجزیہ کار شاہزیب خانزادہ اور مظہرعباس نے اظہار خیال کیا .
سربراہ پلڈاٹ احمد بلال محبوب نے کہاکہ بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ پارلیمنٹ کی جانب سے پاس کیا گیا قانون ہے اس کو کالعدم قرار دینے کا مطلب یہ ہے کہ ملک کے دو بڑے ستون ہیں مقننہ اور عدلیہ جن کے درمیان کشیدگی کی فضا جو پہلے سے موجود ہے مزید اس میں اضافہ ہوسکتا ہے ،دوسری بات 184(3) کے تحت کوئی اپیل نہیں ہوسکتی وہ اگر سپریم کورٹ خود سے سوموٹو لے کر اس کا فیصلہ کردیتی ہے اس کے بعد اس کو کوئی چیلنج نہیں کرسکتا تو اس کے اندر ملک کی تمام بار ایسوسی ایشنز کا متفقہ یہ مطالبہ تھاکہ اس کو ریویو کے لئے اس کی اپیل کا انتظام کیا جائے اب اپیل کا انتظام ہونہیں سکتا تھا لیکن ریویو کے تحت تھوڑا سی گنجائش دی گئی تھی تو میرے خیال سے اس کو کالعدم قرار دینا میں ذاتی طو رپر محسوس کرتا ہوں غیر منصفانہ ہے ظالمانہ ہے .
متعلقہ خبریں