احمد عرفان اسلم نے کہا کہ صدر مملکت کے پاس دس دن موجود تھے وہ اعتراض عائد کرکے واپس کرسکتے تھے جیسا کہ انہوں ںے اس سے قبل بھی ماضی میں کئی بلوں کو اعتراض کے ساتھ واپس کیا، آج سے قبل ایسی کوئی صورتحال سامنے نہیں آئی کہ جس میں بغیر دستخط کے یا بغیر اعتراض کے کسی بل کو واپس کرنے کا عندیہ دیا گیا ہو، دس روز کی مدت صرف اسی لیے ہے تاکہ کوئی آئینی بحران پیدا نہ ہو . نگراں وزیر قانون ںے کہا کہ نگراں حکومت کا سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں اور ہمارا کوئی سیاسی ایجنڈا نہیں ، ہم سیاسی گفتگو سے گریز کریں گے . انہوں ںے مزید کہا کہ اس معاملے پر صدر مملکت کے اسٹاف کا سامنے آکر وضاحت دینا نامناسب عمل ہوگا، ہمیں ایوان صدر سے بل واپس موصول ہوئے ہی نہیں تو ہمیں بلوں پر صدر کے اعتراض کا کیسے پتا چلے گا؟ نگراں وزیر اطلاعات مرتضٰی سولنگی نے ایک سوال پر کہا کہ اس معاملے پر اب کوئی ابہام نہیں، پریس ریلیز اور اس پریس کانفرنس کے ذریعے ہم مکمل وضاحت دے چکے، صدر مملکت ںے دس دن کے اندر یہ دونوں بل اپنے مشاہدات کے واپس کیوں نہ کیے؟ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ ہم اس معاملے میں ایوان صدر کا کوئی ریکارڈ قبضے میں نہیں لیں گے، اگر صدر مملکت کا اسٹاف ان کے اپنے اختیار میں نہیں تو یہ ان کا معاملہ ہے میں اس بارے میں مزید کچھ نہیں کہہ سکتا . . .
اسلام آباد(قدرت روزنامہ) نگراں وزیر قانون احمد عرفان اسلم نے کہا ہے کہ صدر کے پاس دو بلوں کی منظوری کے لیے دس دن موجود تھے وہ ان پر اعتراض عائد کرکے واپس کرسکتے تھے مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا اور مدت پوری ہونے پر بل قانوناً منظور ہوگئے .
نگراں وزیر قانون نے نگراں وزیر اطلاعات مرتضٰی سولنگی کے ساتھ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ صدر مملکت وفاق کے سربراہ ہیں ان کا احترام کرتے ہیں، آرمی ایکٹ ترمیمی بل ایوان صدر کو دو اگست کو موصول ہوا اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ ترمیمی بل منظوری کے لیے ایوان صدر کو آٹھ آگست کو موصول ہوا، ان کے پاس صرف دو اختیار ہیں کہ وہ بل منظور کریں یا اسے اعتراض کے ساتھ واپس کردیں، تیسرا کوئی راستہ نہیں اور اگر بل واپس نہ کیا جائے تو ایوان صدر ارسال کرنے کے دس دن کے اندر قانوناً خود بخود منظور ہوجاتا ہے .
متعلقہ خبریں