پی آئی اے نے مزید 23 ارب مانگ لیے، حکومت نے ری اسٹرکچرنگ کی تجویز دیدی


اسلام آباد(قدرت روزنامہ) قومی ایئر لائن پی آئی اے نے اپنی پروازیں جاری رکھنے کیلیے مزید 23 ارب روپے مانگ لیے ہیں تاہم نگران حکومت نے پیسے دینے کے بجائے ادارے کی ری اسٹرکچرنگ کی تجویز دیدی ہے۔باخبرذرائع کے مطابق پی آئی اے کی مینجمنٹ نے اس ہفتے نگران وزیرخزانہ شمشماد اختر سے ملاقات کی اور ان سے23 ارب روپے فنانسنگ کی درخواست کی لیکن بیل آؤٹ پیکج کی بات فوری طور پر آگے نہیں بڑھ سکی۔
واضح رہے پی آئی اے ملک کی سب سے بڑے خسارے میں چلنے والی کمپنی ہے۔ ہر آنے والی حکومت ایئرلائن کو چلانے کیلیے قومی بجٹ سے پیسے دیتی آئی ہے لیکن کا انتظام چلانے کیلیے پروفیشنل مینجمنٹ تعینات کرنے کے بجائے اس کا انتظام پاکستان ایئرفورس کے افسروں کے ہاتھوں میں دیا جاتا رہاہے جنھیں کمرشل ایئرلائنزکو چلانے کا کوئی تجربہ نہیں ہوتا تھا۔
حالیہ اجلاس میں بھی پی آئی اے مینجمنٹ نے وزیرخزانہ کو بتایا کہ ایئرلائن کو چلانے کیلیے 23 ارب روپے کی فنانسنگ چاہیئے تاہم انہیں وزارت خزانہ کی طرف سے بتایا گیا کہ سالانہ ساورن گارنٹیز کی حد کے بدلے میں بینکوں سے 13 ارب روپے کے فنڈز کا انتظام کیا جائے۔
گزشتہ سال حکومت نے پی آئی اے کا انتظام جاری رکھنے کیلیے سالانہ ساورن گارٹیزکی حد بڑھا کر 263 ارب روپے کردی تھی تاکہ اسے بینکوں سے مزید قرضے ملے سکیں۔لیکن پی پی آئی اے اپنے قرضے چکانے میں ناکام رہی۔بینک اب ادارے کی ساورن گارنٹیز کا کیش کروا سکتے ہیں۔
وزارت خزانہ نے پی آئی اے کو باقی ماندہ 10 ارب روپے رقم کیلیے بھی بینکوں سے رابطہ کرنے کی تجویز دی ہے۔پی آئی اے نے بینکوں سے قرضے لینے کیلیے بھی وزیرخزانہ سے مداخلت کی درخواست کی ہے کیونکہ ادارے کی بیلنس شیٹ مزید قرضوں کیلیے اسے سپورٹ نہیں کرتی۔
رواں سال کی پہلی سہ ماہی میں ہی پی آئی اے کا خسارہ مزید 170 فیصد بڑھ کر36.8 ارب روپے تک پہنچ گیا ہے۔ ایئرلائن کا مجموعی خسارہ 686.7 روپے ہوچکا ہے۔ ادارے کے ذمہ واجب الادا رقوم 369 روپے ہیں جو اس کے کل اثاثوں سے بھی زیادہ ہیں۔
ان حالات میں وزیرخزانہ نے پی آئی اے انتظامیہ کو مشورہ دیا ہے کہ وہ ادارے کی ری سٹرکچرنگ اور پرائیویٹائزیشن کا منصوبہ لے کرآئیں تاکہ اسے وفاقی کابینہ میں پیش کیا جاسکے۔پچھلی حکومت پی آئی اے ایکٹ میں ترمیم کرکے اس کے اکثریتی حصص کی فروخت کی منظوری دے چکی ہے تاکہ اس کا انتظام پرائیویٹ خریدار کے حوالے کیا جاسکے۔
2016ء میں بھی پارلیمنٹ بھی پی آئی اے کی ری سٹرکچرنگ ، اس کے 49 فیصد شیئرفروخت کرکے ادارے کی انتظامیہ ٹرانسفرکرنے کی منظوری دے چکی ہے لیکن اس وقت کی حکومت نے اس کی پرائیویٹائزیشن روک دی تھی۔ذرائع کے مطابق وزیرخزانہ نے پی آئی اے انتظامیہ سے کہا ہے کہ وہ کوئی واضح بزنس پلان تیار کرے جو کہ اس کا اپنا ہو، صرف وفاقی حکومت کی امداد پر انحصار نہیں کیا جاسکتا۔
کمپنی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کا کہنا ہے کہ حکومتی امداد کے بغیر ایئر لائن کا انتظام چلانا مشکل ہے۔گزشتہ سال بھی پی آئی اے نے22 ارب روپے مانگے تھے لیکن اسے 15 ارب روپے ملے تھے جن سے اس نے اپنے ذمہ قرضوں پر سود کی ادائیگی کی تھی۔ابھی گزشتہ ماہ ہی پی آئی اے کو4 ارب روپے دیے گئے تھے جن سے اس نے اپنے ذمہ سول ایوی ایشن اتھارٹی کے واجبات ادا کیے تھے۔
2013ء کی نوازشریف حکومت نے پی آئی اے قانون میں ترمیم کرکے اس کی پرائیویٹائزشن روکنے کی غلطی کی تھی ،اس سیاسی فیصلے کے نتیجے میں اب تک ٹیکس پیئرز کے پیسوں سے 100 ارب روپے اس سفید ہاتھی پر لگ چکے ہیں۔ ستمبر2022ء تک پی آئی اے کو ہونے والا خسارہ 633 ارب روپے تک پہنچ چکا تھا۔اپریل 2021 میں تحریک انصاف کی حکومت نے پی آئی اے کو دوحصوں میں تقسیم کرنے کی منظوری دی تھی ،ان میں ایک اچھی پی آئی اے تھی جس کے ذمہ137ارب روپے کے واجبات تھے جبکہ دوسری بری پی آئی اے تھی جس ذمہ واجبات 457 ارب تھے اور وہ ادارے کے نان کور اثاثوں کی مالک تھی۔لیکن اس منصوبے پر عملدرآمد نہ ہوسکا۔
2017سے لیکر اب تک پی آئی اے کی تقریباً تین بارری سٹرکچرنگ کی کوششیں ہوچکی ہیں لیکن کوئی بزنس پلان نہ ہونے کی وجہ سے ان میں کامیابی نہیں ہوسکی اور قومی فضائی کمپنی بدستور خسارے کے بوجھ تلے دبی جارہی ہے۔