پاکستان

ہمیں بتائیں کہ ترامیم سے نیب قانون کیسے ڈی کریمنائزڈ نہیں ہوا، چیف جسٹس پاکستان کے اہم ریمارکس


اسلام آباد (قدرت روزنامہ)نیب ترامیم کیس میں سپریم کورٹ نے نیب سے ترامیم کے ابتک فائدہ اٹھانے والوں کی اپڈیٹڈ تفصیلات طلب کرتے ہوئے کہا کہ نیب ترامیم سے کچھ جرائم کو ثابت کرنا مشکل بنا دیا۔ ہمیں بتائیں کہ ترامیم سے نیب قانون کیسے ڈی کریمنائزڈ نہیں ہوا۔سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس پاکستان عمرعطابندیال نے وفاقی حکومت کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کا مؤقف ہے نیب قانون کو ترامیم اسٹریکچرڈ کیا گیا۔ نیب ترامیم میں کرپشن کیسز کی حد کو پچاس کروڑ کردیا گیا۔ اس طرح پچاس کروڑسے اوپرکے مقدمات ایک فورم پرچلے گئے۔ پچاس کروڑ سے کم مالیت کے مقدمات دوسرے فورم پر چلے گئے۔
انھوں نے کہا کہ نیب ترامیم ضمانت اورریمانڈ کی ترامیم اچھی ہے۔ نیب قانون کے تحت سزا کے بغیر سالوں میں جیل نہیں رکھا گیا۔ نیب ترامیم کو ماضی سے مؤثر کیا گیا۔وکیل مخدوم علی خان نے دلائل دیے کہ آپ نے حلف اٹھایا ہے۔ آپ نے فیصلہ اچھے برے پر نہیں کرنا۔ آپ نے معاملہ کا فیصلہ آئینی معیار پر کرنا ہے۔ نیب نے چھوٹی مالیت کے کیسز بھی بنائے۔ بلوچستان ہائیکورٹ نے نیب کے چھوٹے مالیت کے مقدمات پر آبزرویشنز دی۔ کیا احتساب کرنا صرف نیب کا کام ہے۔ احتساب کے دوسرے ادارے بھی موجود ہیں۔ 1947سے 1999 تک نیب کا ادارہ نہیں تھا۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ نیب کے ادارہ کو پارلیمنٹ نے کیوں ختم نہیں کیا جس پروکیل مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ نیب قانون ہمیشہ سےبرا اور کالا قانون تصور کیا گیا۔ پارلیمنٹ کا اختیار ہے ادارہ کو ختم کردے یا قانون میں ترامیم کرے۔ پارلیمنٹ نے نیب قانون میں ترامیم کا فیصلہ کیا۔
چیف جسٹس عمرعطابندیال نے کہا کہ نیب ترامیم میں انکوائری سطح پر گرفتاری ختم کردی گئی۔ بعد ازاں انکوائری اسٹیج پر گرفتاری نہ کرنے کی شق ختم کردی گئی۔اس سے قبل چیئرمین پی ٹی آئی کی نیب ترامیم کے خلاف درخواست کی سماعت کے آغاز میں وفاقی حکومت کے وکیل مخدوم علی خان نے دلائل دیے جس میں انھوں نے عدالت سے کہا کہ مناسب ہوگا کہ عدالت پریکٹس اینڈ پروسیجر کیس کا فیصلہ پہلے کردے،
پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون پر فیصلے تک فل کورٹ نیب ترامیم کیس پر سماعت کرے۔چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ معطل شدہ قانون پرعملدرآمد کیسے ممکن ہے، پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کا اطلاق پہلے سے جاری مقدمات پر نہیں ہوتا، قوانین کا ماضی سے اطلاق ہمیشہ حالات سے مشروط ہوتا ہے۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجربل عدلیہ کی آزادی پر حملہ ہے، پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کے ذریعے آئین کی بنیاد ہلا دی گئی۔
جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا کہ لگتا ہے بات نیب ترامیم کیس آٹھ رکنی بنچ کی جانب جا رہی ہے، چیف جسٹس پاکستان بولے پریکٹس اینڈ پروسیجر کیس پررائے نہیں دینا چاہتا، میرا خیال ہے کہ نیب ترامیم کیس کو آگے بڑھایا جائے، مخدوم علی خان کا پہلے ہی شکوہ ہے انہیں خواجہ حارث سے کم وقت ملا۔

متعلقہ خبریں