مردم شماری میں پشتون اضلاع کی 30 لاکھ آبادی کم کرنے کیخلاف پشتونخوا میپ کا احتجاجی تحریک کا اعلان


کوئٹہ (قدرت روزنامہ) پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے رہنماﺅں کبیر افغان ، ڈاکٹر حامد خان اچکزئی ، مجید خان اچکزئی نے بلوچستان کی حالیہ ڈیجیٹل مردم شماری کے دوران پشتون علاقوں کی 30 لاکھ آبادی کم کرنے کی مذمت کرتے ہوئے اس کے خلاف احتجاج کا اعلان کرتے ہوئے احتجاجی شیڈول جاری کردیا۔ 6 ستمبر کو کوئٹہ ، 8 ستمبر چمن، 9 ستمبر پشین، 14 ستمبر ژوب، شیرانی ، 16 ستمبر لورالائی، 15 ستمبر زیارت سنجاوی، 15 ستمبر دکی، 22 ستمبر قلعہ سیف اللہ ، 24 ستمبر ہرنائی، 25 ستمبر کو سبی میں احتجاجی مظاہرے کرنے کا اعلان کردیا۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے پشتونخوا ملی عوامی پارٹی جنوبی پشتونخوا کی صوبائی ایگزیکٹو کا اجلاس صوبائی صدر عبدالقہار خان ودان کی صدارت میں ہونے والے فیصلوں کے حوالے سے منگل کو کوئٹہ پریس کلب میں مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران کیا
اس موقع پر لیاقت آغا، ولیم برکت، حاجی عبدالرحمان بازئی، سید عبدالخالق آغا، ذاکر حسین کاسی، محمد ادریس بڑیچ، گل نجیب ، حاجی فرید پانیزئی ، جمال خان مندوخیل، رزاق ترین، حبیب الرحمان خان بازئی، سردار حیات خان سمیت دیگر بھی موجود تھے۔ کبیر افغان اور دیگر رہنماﺅں کا کہنا تھا کہ ملک کی حالیہ ڈیجیٹل مردم شماری سب سے زیادہ غیر شفاف ، دروغ گوئی اور دھوکہ دہی ثابت ہوئی حالیہ مردم شماری میں صوبے میں پشتون خوشحال ترقی یافتہ زندگی کی سہولیات رکھنے والے اضلاع کی اکثریت کو بڑے پیمانے پر عالمی گروتھ ریٹ کے معیار جوکہ 2.50 فیصد سے کم ظاہر کیا گیا اور بلوچ اضلاع میں ایک دو اضلاع کو چھوڑ کر باقی تمام اضلاع کو عالمی گروتھ ریٹ سے کئی گنا زیادہ ظاہر کیا گیا جس کا ثبوت 1998,2017,2023 کے چارٹ سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے انہوں نے کہا کہ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 153 کے تحت کونسل آف کامن انٹرسٹ کے ادارے سے منظوری لینا آئین کا تقاضا تھا اور اس ادارے نے بلوچستان خصوصاً پشتون اضلاع کی مردم شماری 30 لاکھ کم کی حالانکہ کوئٹہ ،پشین، چمن، قلعہ عبداللہ، قلعہ سیف اللہ، لورالائی کو جان بوجھ کر عالمی معیار سے مسلسل تیسری مردم شماری میں نیچے ظاہر کیا
جبکہ بلوچ اضلاع کی بڑی اکثریت کو ان مردم شماریوں میں عالمی معیار 2.50 سے 9.51 فیصد تک بڑھایا گیا اور انصاف کی دھجیاں اڑانے اور سی سی آئی کے فیصلے پر سوالیہ نشان ہے۔ انہوںنے کہا کہ ایک جانب بجلی کی نایابی اور دوسری جانب ان کے نرخوں میں ٹیکسز کی بھرمار عوام بل ادا کرنے سے قاصر اور سراپا احتجاج ہے اور گزشتہ دو سال سے گیس بھی نایاب ہے اس کے بل بھی لوگوں کی دسترس سے باہر ہے گزشتہ بیس سالوں سے پشتون اضلاع میں مروجہ قوانین ، رولز اور ضابطوں کے خلاف پشتونوں کے شناختی کارڈ بلاک کئے گئے اور رکاوٹیں کھڑی کی گئیں اور لوگوں کے لئے مشکلات پیدا کی جارہی ہے مہنگائی کی شرح میں 42 فیصد اضافہ ہوا کھانے پینے کی چیزیں 3 گنا بڑھ چکی ہے عوام میں غم و غصہ پایا جاتا ہے ملک اور صوبے میں نا اہل اور ناکام حکومتوں کو مسلط کیا گیا ہے انہوں نے کہا کہ گزشتہ حکومت اور نگران سیٹ اپ میں لوگوں کو پیسے لیکر نوکریاں دی جارہی ہے
جس کی ہم مذمت کرتے ہیں ہماری الیکشن کمیشن سے اپیل ہے کہ وہ صوبائی محکموں ملازمتوںاور تعیناتیوں پر پابندی عائد کی جائے۔ جن محکموں میں نوکریوں کی خرید و فروخت ہوئی ہے اس کی تحقیقات کریں ہماری جماعت نے ان تمام ناروا اقدامات کے خلاف احتجاجی مظاہروں کا اعلان کیا ہے۔ 6 ستمبر بدھ کو کوئٹہ میں 4 بجے ، 8 ستمبر جمعہ کو صبح 9 بجے چمن، 9 ہفتہ کو 10 بجے پشین، 14 کو ژوب، شیرانی میں ، 16 ستمبر لورالائی، 15 ستمبر زیارت سنجاوی، 15 ستمبر دکی، 22 ستمبر قلعہ سیف اللہ ، 24 ستمبر ہرنائی، 25 ستمبر کو سبی میں احتجاجی مظاہرے کئے جائیں اور اس کے بعد آئندہ کا لائحہ عمل طے کیا جائے گا۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ کوئٹہ کی آبادی 32 لاکھ تھی جس کو 6 لاکھ کم کیا گیا ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہم نے پی ڈی ایم کا 26 نکات پر ساتھ دیا تھا جب انہوں نے انحراف کیا تو ہم ان کے اقدامات کا حصہ نہیں رہے۔ ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پشتون علاقوں میں سیاسی جماعتوں سے رابطے کرکے اپنے احتجاج کو وسعت دیں گے۔