آشوب چشم متاثرہ فرد کی آنکھوں میں دیکھنے سے نہیں ہوتا، ماہرین


کراچی(قدرت روزنامہ) آشوب چشم کی وبا پھیلنے کے بعد شہر میں آئی ڈراپس کی مصنوعی قلت پیدا ہوگئی،جبکہ دستیاب ادویات اور آئی ڈراپس کی قیمتوں میں غیر معمولی اضافہ کردیا گیا ہے۔آئی ڈراپس کی بلیک مارکیٹنگ اور ذخیرہ اندوزی سے منافع خوروں کا بازار سرگرم ہوگیا ہے۔طبی ماہرین نے اس تاثر کو غلط قرار دیدیا کہ ریڈ آئی انفیکشن متاثرہ فرد کی آنکھوں میں دیکھنے سے ہوتا ہے۔
تفصیلات کے مطابق کراچی میں سرخ آنکھ کے انفیکشن کی وبا پھوٹ پڑی ہے،جناح اسپتال اور سول اسپتال سمیت دیگر سرکاری و نجی اسپتالوں میں یومیہ آشوب چشم کے 70 سے 80 کیسز رپورٹ ہورہے ہیں،کراچی کی شہری بڑی تعداد میں ریڈ آئی انفیکشن میں مبتلا ہوچکے ہیں،جن میں بچے بھی بڑی تعداد میں شامل ہیں۔
اسپتالوں میں مریض آنکھ کی پتلی میں جلن،سوزش،خارش،سرخی،آنکھوں میں زیادہ پانی اور پیپ کے اخراج کی شکایت کے ساتھ آرہے ہیں،طبی ماہرین کی جانب سے مریضوں کو تجویز دی جارہی ہے کہ حفظان صحت آشوب چشم کی منتقلی اور پھیلاؤ کے خطرے کو بہت حد تک کم کر سکتا ہے۔
شہری اپنے ہاتھوں کو صابن اور گرم پانی سے کم از کم 20 سیکنڈ تک دھوئیں اور ہینڈ سینیٹائزر استعمال کریں،متاثرہ شخص کی آنکھوں میں ڈراپ ڈالنے کے بعد فوراً ہاتھ دھوئیں،متاثرہ فرد اپنی آنکھوں کو چھونے یا رگڑنے سے گریز کریں،متاثرہ فرد اپنی آنکھوں کے گرد مادہ کو دن میں کئی بار صاف کرکے دھوئے۔
صاف ٹیشو کو استعمال کے بعد پھینک دیں اور استعمال شدہ کپڑادھو لیں۔اپنی متاثرہ آنکھوں کے لیے الگ آئی ڈراپ کی بوتل استعمال کریں،گھر کے کسی فرد کو استعمال شدہ أئی ڈراپ دوبارہ استعمال نہ کرنے دیں،شہری اپنے تکیے، چادریں، واش کلاتھ، اور تولیے گرم پانی اور صابن سے دھوئیں،تکیے، واش کلاتھ، تولیے، آئی ڈراپس، آنکھ یا چہرے کا میک اپ اور ذاتی اشیاء شیئر نہ کریں۔
طبی ماہرین نے مزید کہا کہ ریڈ آئی کے متعلق آگاہی کی کمی کے سبب آبادی کا ایک بڑا حصہ یہ سمجھتا ہے کہ آئی انفیکشن سے متاثر فرد کی آنکھوں میں دیکھنے سے پھیلتا ہے،ہم اگر متاثر فرد کو سن گلاسز پہننے کی تجویز کرتے ہیں تو اس کا مقصد صرف مریض کی آنکھ کو تیز روشنی سے تحفظ فراہم کرنا ہوتا ہے،اگر حفظان صحت کا خیال رکھا جائے تو اس کے پھیلاؤ پر قابو پایا جاسکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایسی صورتحال میں جب آشوب چشم کے کیسز میں دن بہ دن اضافہ ہورہا ہے،شہر میں ادویات کی ہول سیل مارکیٹوں اور میڈیکل اسٹورز پر معتدد آئی ڈراپس غائب ہوچکے ہیں،جبکہ بقیہ دیگر ادویات اور آئی ڈراپس کی قیمتوں میں غیر معمولی اضافہ ہوگیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ہول سیل مارکیٹوں کے دکانداروں کے مطابق گزشتہ 15 روز میں متعدد آئی ڈراپس کی قیمتوں میں 20 فیصد اضافہ ہوا ہے،شہر میں پولی پیپ ،جینٹاسن،بیٹناسول فلورومیتھولون اور افلاسیسن سمیت دیگر آئی ڈراپس میڈیکل اسٹورز اور ادویات کی ہول سیل مارکیٹوں سے غائب ہوچکے ہیں،ذرائع کے مطابق بیٹناسول 60 روپے ،فلورومیتھولون کی قیمت 55 روپے ،افلاسیسن کی قیمت 40 روپے تھی،جبکہ اوکٹاکلورائڈ اب 36 روپے کے بجائے 50 روپے میں فروخت ہورہی ہے۔ اب کچھ منافع خور ان کی من مانی قیمتیں وصول کررہے ہیں۔
ادویات کی ہول سیل مارکیٹ کے دکاندار ایس ایم رئیس نے کہا گزشتہ ایک ماہ سے جب آشوب چشم کے کیسز میں اضافہ ہوا تب سے ہی مختلف کمپنیوں کے آئی ڈراپس کی قلت پیدا ہوگئی ہے،اس سے قبل آئی ڈراپس کا بحران پیدا نہیں ہورہا تھا،جو آئی ڈراپس با آسانی 25 سے 30 روپے میں دستیاب ہوجاتے تھے،اب ان کے لیئے شہریوں کو دگنے پیسے ادا کرنے پڑرہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر دوا ساز کمپنیاں بیک اپ رکھتے ہوئے میڈیکل اسٹورز اور ہول سیل مارکیٹوں میں ادویات کی فراہمی کو ممکن بناتی ہیں تو صورتحال میں بہتری متوقع ہے،مجھے لگتا ہے کہ کچھ افراد کی جانب سے منظم منصوبے کے تحت مصنوعی قلت پیدا کی جارہی ہے،کیونکہ زیادہ تر آئی ڈراپس پاکستان میں ہی تیار کیے جاتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ڈالر کی اونچی اڑان اور خام مال کے مہنگے دام کے سبب دواساز کمپنیوں نے آئی ڈراپ کی قیمتوں میں اضافہ کیا ہے مگر کچھ منافع خور ذخیرہ اندوزی اور آئی ڈراپس کی بلیک مارکیٹنگ میں ملوث ہیں،اگر ان ادویات کی قیمتیں 5 فیصد اضافہ ہوتا تو بات سمجھ آتی لیکن گزشتہ 15 روز میں آئی ڈراپس کی قیمتوں میں 20 فیصد اضافہ درست نہیں ہے،جبکہ کچھ لوکل کمپنیاں جیسٹرا،بیٹیسول،بیٹامیٹاسول سمیت چند آئی ڈراپس دو یا تین روپے کے فرق سے فروخت ہورہے ہیں۔
چیئر مین پاکستان فارماسوٹیکل مینوفیکچرز ایسوسی ایشن( پی پی ایم اے) فاروق بخاری نے تصدیق کی کہ ڈرگز ریگیولیریٹی اتھارٹی آف پاکستان(ڈریپ) کی منظوری سے آئی ڈراپس کے قیمتوں میں 20 فیصد اضافہ کیا گیا ہے،شہر میں آئی ڈراپس کی قلت کی دو بنیادی وجوہات ہیں۔
پہلی یہ کہ بہت سے پروڈکس کی لاگت زیادہ ہوگئی ہے جبکہ اس کی قیمت میں اضافے کی منظوری نہیں دی جارہی جس کی وجہ سے دوا ساز کمپنیوں کو نقصان ہورہا ہے اور وہ ایسے پروڈکس بنانا کم کررہی ہیں اور دوسری وجہ یہ ہے کہ آئی ڈراپس کی ڈیمانڈ میں اضافے کے سبب شہر میں بحران سر اٹھا رہا ہے۔
شہریوں نے شکوہ کیا کہ حکومت پاکستان ،ڈریپ اور تمام متعلقہ افسران آشوب چشم کی وبا کے سبب آئی ڈراپس کی قیمتوں میں ریلیف فراہم کریں،دیگر ممالک میں اگر کوئی وبا پنجے گاڑتی ہے تو حکومت کی ہر ممکن کوشش ہوتی ہے کہ وہ اس مرض کے علاج اور ادویات کو سستہ کریں،المیہ ہے جب پاکستان میں کوئی مرض پھوٹ پڑھتا ہے تو منافع خوروں کا بازار سرگرم ہوجاتا ہر شخص کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ لوگوں کے خوف سے کھیل کر اپنے پیسے کمالے اور کوئی کاروائی تک نہیں کی جاتی ہے،ڈرگ انسپیکٹرز سے درخواست ہے کہ ذخیرہ اندوزی اور بلیک مارکیٹنگ کے خلاف کاروائی کرے تاکہ عوام کو ریلیف فراہم کیا جاسکے۔