سرکاری ملازم کیخلاف محکمانہ کارروائی ریٹائرمنٹ کے دو سال کے اندر ہی ہو سکتی ہے، سپریم کورٹ


اسلام آباد(قدرت روزنامہ)سپریم کورٹ آف پاکستان نے فیصلہ دیا ہے کہ کسی بھی سرکاری ملازم کے خلاف محکمانہ کارروائی ریٹائرمنٹ کے دو سال کے اندر اندر ہی ہو سکتی ہے اس کے بعد نہیں۔ ملازم کے خلاف کارروائی پیڈا ایکٹ 2006 کی خلاف ورزی ہے، سروس ٹربیونل نے درست فیصلہ دیا،اپیل مسترد کی جاتی ہے ۔جمعرات کو سپریم کورٹ نے پانچ صفحات پر مشتمل فیصلہ جاری کردیا۔ تفصیلی فیصلہ جسٹس مسرت ہلالی نے تحریر کیا ہے۔
فیصلے میں کیس سے متعلق بتایا گیا کہ محمد افضل انجم طور راول ڈیم ڈویژن اسلام آباد میں چیف انجینئر کے عہدے پر تعینات تھے، محکمہ آب پاشی پنجاب نے محکمانہ کارروائی کا آغاز کرتے ہوئے ایگزیکٹو انجینئر کو ریٹائرمنٹ کے 3 سال بعد شوکازنوٹس جاری کیا جس میں ملزم پر مس کنڈکٹ اور کرپشن کے الزامات عائد کئے گئے تھے۔تحقیقاتی کمیٹی نے نومبر 2020 میں یہ تجویز دی کہ ایگزیکٹو انجینئر کی پنشن سے 55 لاکھ روپے ریکور کئے جائیں،
ٹربیونل نے فروری 2022 میں محکمانہ آرڈر کالعدم قرار دے کر پنشن اور تمام مراعات ادا کرنے کا حکم دیا۔عدالت نے فیصلے میں کہا کہ ہمارے سامنے یہ سوال تھا کہ کیا کسی شخص کی ریٹائرمنٹ کے تین سال سے زائد عرصہ گزر جانے کے بعد محکمانہ کارروائی ہو سکتی ہے یا نہیں؟۔عدالت نے کہا کہ پیڈا(PEEDA) ایکٹ 2006 کی شق 21 کے تحت ملازم کی ریٹائرمنٹ کے دو سال کے اندر اندر محکمانہ کارروائی کی جاسکتی ہے، سپریم کورٹ ایک فیصلے میں اصول طے کر چکی ہے کہ پیڈا قانون کا مقصد اچھی طرز حکمرانی اور سرکاری ملازمین میں خود احتسابی کا حدف حاصل کرنا ہے،
یہ قانون حاضر سروس ملازمین اور ان ریٹائر ملازمین کے خلاف محکمانہ کارروائی سے متعلق ہے جن کے خلاف کارروائی ریٹائرمنٹ کے ایک سال کے اندر اندر کی گئی ہو۔فیصلے میں کہا گیا کہ مذکورہ ملازم دس جنوری 2017 کو ریٹائر ہوا جبکہ اس کے خلاف محکمانہ کارروائی 24 فروری 2020 کو شروع ہوئی، ملازم کے خلاف کارروائی پیڈا ایکٹ 2006 کی خلاف ورزی ہے، سروس ٹربیونل نے قانون کے مطابق درست فیصلہ دیا، اپیل مسترد کی جاتی ہے۔