کراچی میں امسال ڈاکوؤں کی فائرنگ سے 100 شہری جاں بحق


کراچی(قدرت روزنامہ) شہر میں جاری ڈاکو راج کے دوران ڈاکوؤں کی فائرنگ کا نشانہ بن کر زخمی اور زندگی سے محروم ہونے کا سلسلہ تھم نہ سکا۔کورنگی اللہ والا ٹاؤن میں 2 روز قبل والد سمیت ڈکیتی کے دوران مزاحمت پر فائرنگ سے زخمی نوجوان موت اور زندگی کی کشمکش میں مبتلا رہنے کے بعد زندگی کی بازی ہار گیا۔
رواں سال شہر قائد میں دوران ڈکیتی مزاحمت قتل کیے جانے والے شہریوں کی تعداد 100 ہو گئی جبکہ سینکڑوں شہری ڈاکوؤں کی فائرنگ کا نشانہ بن کر ہوگئے۔پولیس کے اعلیٰ حکام اجلاسوں میں ماتحت افسران کی پیش کی گئی کارکردگی رپورٹس پر مطمئین ہوجاتے ہیں لیکن اس کے برعکس زمینی حقائق کچھ اور ہی ہوتے ہیں۔
نگراں حکومت سندھ کی جانب سے پولیس افسران کی تعینات کا عمل مکمل ہونے کے بعد جلد اسٹریٹ کرائمز کی واراتوں پر قابو پانے سے متعلق فیصلے پر عملدرآمد ہوتا دکھائی نہیں دے رہا جس طرح سے شہر میں ڈاکو راج قائم سے اس سے تو یہی اندازہ ہوتا ہے کہ شہریوں کو بے رحم ڈاکوؤں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا اور وہ جب اور جہاں چاہیں نہ صرف لوٹ مار کرتے ہیں بلکہ معمولی سے مزاحمت پر شہریوں کی جان لینے اور انھیں زخمی کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔
3 روز قبل پیر کو کورنگی صنعتی ایریا کے علاقے اللہ والا ٹاؤن میں ڈکیتی کے دوران مزاحمت پر ڈاکوؤں ںے فائرنگ کر کے باپ اور بیٹے کو شدید زخمی کر دیا تھا جنھیں فوری طبی امداد کے لیے جناح اسپتال منتقل کیا گیا جہاں زخمی ہونے والا بیٹا 20 سالہ علی عباس دوران علاج زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے زندگی کی بازی ہار گہا۔
مقتول علی عباس اللہ والا ٹاؤن کا رہائشی اور زخمی والد کے ہمراہ گاڑیوں کی ڈیٹنگ پینٹنگ کا کام کرتا تھا ، کورنگی صنعتی ایریا پولیس نے اپنی ناقص کارکردگی کے بعد چابکدستی کا مظاہرہ کرتے ہوئے واردات کے بعد ڈاکؤوں کے خلاف مقدمہ درج کر کے انویسٹی گیشن پولیس کے حوالے کر دیا جبکہ شہر بھر میں ایسے درجنوں مقدمات درج ہیں جن میں قاتل ڈاکو تاحال قانون کی گرفت میں نہ آسکے۔
جنوری میں بے رحم ڈاکوؤں نے مزاحمت پر فائرنگ کر کے 13 شہریوں ، فروری میں 12 ، مارچ میں 10 اور اپریل میں 12 نہتے شہریوں کو اپنی سفاکانہ فائرنگ کا نشانہ بنا کر ابدی نیند سلا دیا۔اسی طرح مئی میں 15 شہری ، جون میں 9 ، جولائی میں 12 جبکہ اگست میں ڈاکوؤں نے 8 شہریوں کو ڈکیتی کے دوران مزاحمت پر فائرنگ کر کے زندگی سے محروم کر دیا۔ رواں ماہ ستمبر کے 20 روز میں اب تک 9 شہری ڈکیتی مزاحمت پر قتل کیے جا چکے ہیں۔
ڈاکوؤں کے ہاتھوں جاں بحق و زخمی ہونے والوں میں پولیس اہلکار ، خواتین ، باپ ، بیٹے ، معصوم بچے اور بزرگ شہری بھی شامل ہیں۔ذرائع سی پی ایل سی کے مطابق رواں سال شہر قائد میں اب تک اسٹریٹ کرائمز کی 60 ہزار سے زائد وارداتیں رپورٹ ہوچکی ہیں۔
شہر قائد میں بڑھتی اسٹریٹ کرائم کی واداتوں پر نئے آئی جی سندھ رفعت مختارراجہ اور ایڈیشنل آئی جی کراچی خادم حسین ، زونل ڈی آئی جیز اور ڈسٹرکٹ ایس ایس پیز بھی اسٹریٹ کرائمز کی وارداتوں پر قابو پانے یا ان کی روک تھام کے لیے کوئی بہتر حکمت عملی اپنانے میں ناکام دکھائی دیتے ہیں جس کا خمیازہ روز کی بنیاد پر معصوم اور بے گناہ شہریوں کو نہ صرف اسلحے کے زور پر نقدی ، موبائل فونز اور دیگر اشیا گنوا کر بلکہ زخمی ہو کر اور زندگی کی بازی ہار کر برداشت کرنا پڑتا ہے۔
ڈاکوؤں کو وارداتیں کرنے کے دوران سڑکوں ، محلوں اور گلیوں میں لگے ہوئے کلوز سرکٹ کیمروں سے بھی شناخت ہونے کا کوئی ڈر و خوف نہیں جس سے ان کے حوصلوں کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے جبکہ روزانہ کی بنیاد پر پولیس کی جانب سے بھی اسٹریٹ کرمنلز سمیت دیگر جرائم پیشہ عناصر کو مقابلے کے دوران زخمی سمیت درجنوں ملزمان کو گرفتار کرنے کے دعوے سامنے آتے ہیں اور پولیس کی اس کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو جس طرح سے شہر میں رات ہوتے ہی پولیس مقابلوں کا آغاز ہوتا ہے اسے دیکھتے ہوئے تو اسٹریٹ کرمنلز کو تو یہ شہر ہی چھوڑ کر چلے جانا چاہے یا پھر وہ ان وارداتوں سے توبہ کرلیں۔
دوسری جانب نگراں حکومت سندھ کی جانب سے کراچی پولیس چیف ، زونل ڈی آئی جیز ، ڈسٹرکٹ ایس ایس پیز اور شہر بھر کے ایس ایچ اوز کی اکھاڑ پچھار کے باوجود شہر میں اسٹریٹ کرائمز کی واراتیں کسی بھی صورت تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہی ہیں۔
نگراں حکومت سندھ کی جانب سے اسٹریٹ کرائمز کی وارداتوں پر قابو پانے سے متعلق اہم فیصلے اور حکمت عملی مرتب کرنے کے دعوے تو ضرور سامنے آئے لیکن ان پر عمل درآمد ہوتا ہوا دکھائی نہیں دیا جبکہ شہر میں مسلح موٹر سائیکل سوار ڈاکوؤں کا ٹولہ آزدانہ ہوٹلوں پر بیھٹے ہوئے درجنوں شہریوں کو نقدی ، موبائل فونز اور دیگر اشیا سے محروم کر جاتا اور اس دوران پولیس کا دور دور تک نام و نشان تک نہیں ہوتا۔
خصوصاً ڈسٹرکٹ سینٹرل ان مسلح ڈاکوؤں کے ٹولے کا مسلسل نشانہ بن رہا ہے اور اب تک ہوٹل پر بیٹھے ہوئے شہریوں کو سے لوٹ مار کے کئی واقعات رونما ہو چکے ہیں اور پولیس کسی بھی ایک واردات میں موقع پر پہنچ کر ان وارداتوں میں ملوث ڈاکوؤں کے ٹولے کو پکڑنے میں ناکام رہی جس سے پولیس کے موبائل و موٹر سائیکل گشت کا بھی بخوبی اندازہ لگایا جایا سکتا ہے ۔