سینیٹر ثمینہ ممتاز زہری کی تجویز کردہ اہم قانون سازی کی منظوری


پہلی تجویز میں میں کہا گیا کہ پرائیویٹ ہسپتالوں کو بھی عصمت دری کے متاثرین کو مفت میڈیکو لیگل امداد فراہم کرنا چاہیے
بل کی منظوری سے ان طبی پیشہ ور افراد کو سزا دی جاسکے گی جو اپنی سرکاری ڈیوٹی کا لازمی جزو ہونے کے باوجود عصمت دری کے متاثرین کے علاج میں مجرمانہ غفلت برتتے ہیں
ہمارے ملک میں مطلوبہ طبی علاج کروانے سے صاف انکار کر دیا جاتا ہے جس سے انصاف کے تقاضے پورے ہونے میں رکاوٹیں درپیش ہوتی ہیں
دوسری تجویز میں پرائیویٹ جیلوں کیخلاف سینیٹر مشتاق احمد خان اورسینیٹر ثمینہ ممتاز زہری کا مشترکہ بل “فوجداری ترمیمی بل 2023” کو متفقہ طور پر منظور کر لیاگیا
بل میں نجی جیلوں کے قیام پر 3 سال قید اور 10لاکھ روپے جرمانہ جبکہ کسی کو ناجائز قید رکھنے پر 5 سال قید اور 20 لاکھ روپے جرمانہ تک کی سزا تجویزکی گئی ہے
اسلام آباد(قدرت روزنامہ)سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ نے بلوچستان عوامی پارٹی کی سینیٹر ثمینہ ممتاز زہری کی تجویز کردہ اہم قانون سازی کی منظوری دے دی۔سینیٹر ثمینہ ممتاز زہری کی پیش کردہ پہلی تجویز میں میں کہا گیا کہ پرائیویٹ ہسپتالوں کو بھی عصمت دری کے متاثرین کو مفت میڈیکو لیگل امداد فراہم کرنا چاہیے تاکہ عصمت دری کے متاثرین کی تفتیش اور مقدمے کی سماعت میں مجرمانہ غفلت سے بچا جا سکے۔تجویز میں یہ بھی کہا گیا کہ فوجداری ترمیمی بل، 2023 (نئی دفعہ 376-A کا اندراج) کے ذریعے ان طبی پیشہ ور افراد کو سزا دی جائے گی۔
جو اپنی سرکاری ڈیوٹی کا لازمی جزو ہونے کے باوجود عصمت دری کے متاثرین کے علاج میں مجرمانہ غفلت کے مرتکب پائے جائیں گے۔ ہمارے ملک میں جہاں عصمت دری یا جنسی تشدد کا نشانہ بننے والے حملے کے بعد ہنگامی طبی امداد کیسلسلے میںیا تو ہزاروں روپے کے میڈیکل بلوں میں ڈالے جاتے ہیں یا مطلوبہ طبی علاج کروانے سے صاف انکار کر دیا جاتا ہے جس سے انصاف کے تقاضے پورے ہونے میں رکاوٹیں درپیش ہوتی ہیں۔
دوسری تجویز میں سینیٹ کی کمیٹی برائے داخلہ نے پرائیویٹ جیلوں کیخلاف سینیٹر مشتاق احمد خان اورسینیٹر ثمینہ ممتاز زہری کا مشترکہ بل “فوجداری ترمیمی بل 2023” کو متفقہ طور پر منظور کر لیا۔بل میں نجی جیلوں کے قیام پر 3 سال قید اور 10لاکھ روپے جرمانہ جبکہ کسی کو ناجائز قید رکھنے پر 5 سال قید اور 20 لاکھ روپے جرمانہ تک کی سزا تجویزکی گئی ہے۔تجویز میں کہا گیا کہ پاکستان کے دستور کے آرٹیکل 14 میں آدمی کے وقار اور احترام کی ضمانت دی گئی ہے جبکہ دستور پاکستان کی شق 11 غلامی اور جبری مشقت کی ممانعت کرتی ہے۔تجویز میں یہ بھی کہا گیا کہ نجی جیلیں سراسر غیر انسانی، غیرقانونی عمل ہے۔
اس وقت بلوچستان میں 71 نجی جیلوں کی اطلاعات ہیں اور سندھ میں 2020 سے 2022 تک 5ہزار لوگ نجی جیلوں سے رہا کروائے گئے ہیں۔نجی جیلیں بااثر افراد کی طرف سے قائم کردہ جھوٹی قید کی ایک شکل ہیں اس لیے ان جیلوں پر پابندی عائد کی جانی چاہئے۔ دوسرے بل کے ذریعے، فوجداری قوانین (ترمیمی) بل 2023، باب II میں نئی ??دفعہ 52-B، 52-C اور 52-D کا اضافہ، پاکستان پینل کوڈ (1860 کا ایکٹ XLV)، بے گناہوں کی نجی قید کا غیر انسانی عمل اور بااثر افراد کی طرف سے غریب مزدوروں، کرایہ داروں اور دیگر افراد کو بھاری جرمانے کے ساتھ ختم کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔