سولر پینل اور بیٹریوں کی قیمت میں بڑی کمی
اسلام آباد (قدرت روزنامہ)امریکی کرنسی ڈالر کی قیمت میں مسلسل گراوٹ کے بعد الیکٹرانک سامان ، گاڑیاں اور تعمیراتی میٹریل کی قیمتوں میں کمی ہونا شروع ہو گئی۔اب سولر پلیٹس اور بیٹریاں بھی سستی ہوگئیں۔تفصیلات کے مطابق مارکیٹ ذرائع نے بتایا ہے ہے کہ کراچی کی ریگل مارکیٹ سولر پلیٹس کی قیمتوں میں 5ہزار سے 15 ہزار تک کی کمی ہوئی ہے۔ 165 واٹ کی سولر پینل کی قیمت 16ہزار200سے کم ہوکر10 ہزار 800 روپے ہوگئی ہے ۔
جبکہ 260واٹ کی سولر پلیٹ کی قیمت میں 6 ہزارروپے کی کمی کی گئی ہے۔اس حوالے سے تاجروں نے کہا کہ 550 واٹ کی سولر پلیٹ کی قیمت48ہزار400 سے کم ہوکر33ہزار روپے پر آگئی ہے۔سولر پینل کیساتھ 150ایمپیئرکی بیٹری کی قیمت میں بھی 6 ہزار روپے کی کمی ہوئی ہے۔
دوسری جانب سولر پینل کی قیمت میں کمی کے حوالے سے تاجر برادری تقسیم نظر آرہی ہے۔ پاکستان سولر ایسوسی ایشن کے مطابق ملک میں گذشتہ 2 سال کے دوران 3 ارب 60 کروڑ ڈالر کے سولر پینلز درآمد کیے گئے ہیں۔سستی شمسی توانائی کےاستعمال کو فروغ دینےکیلئےحکومت نے رواں سال فروری میں سولر امپورٹ پر تمام ٹیکسز ختم کیے تھے۔ جس کی وجہ سے سولر پینل کی قمیت فی واٹ 135روپے سے کم ہوکر 70 روپے فی واٹ ہوئی تھی۔
550 واٹ کا سولر پینل 75ہزار سے کم ہو کر 34ہزار روپے ہو چکاہے۔ اب امریکی کرنسی ڈالر کی قیمت میں بڑی کمی کے باوجود اکثرمارکیٹوں میں قیمتیں فروری والی وصول کی جارہی ہیں۔خیال رہے کہ گزشتہ ماہ ستمبر میں سولر پینل درآمد کی آڑمیں ملک سے اربوں روپے کی منی لانڈرنگ کا انکشاف سامنے آیا تھا۔
سینیٹ خزانہ کمیٹی نے معاملے کی مکمل تحقیقات کرکے ذمہ داروں کا تعین کرنے کا حکم دے دیا۔چیئرمین ایف بی آر امجد زبیر ٹوانہ نے کمیٹی کو بتایا کہ 2017 سے 2022 کے دوران سولر پینل درآمد کے نام پر 72 ارب 83 کروڑ روپے ملک سے باہر بھیجے گئے لیکن مقامی مارکیٹ میں صرف 45 ارب 61 کروڑ روپے کے درآمدی سولر پینلز فروخت ہوئے، یوں 69 ارب 50 کروڑ روپے کی اوور انوائسنگ سامنے آئی۔
چیئرمین ایف بی آر نے بتایا کہ اربوں روپے کے سولر پینلز چین سے درآمد کئے گئے لیکن رقم دبئی اور سنگاپور ٹرانسفر کی گئی۔ آڈٹ کے ذریعے 6 ہزار 232 گڈز ڈکلیریشنز کا سراغ لگایا جا چکا۔حکام کا کہنا ہے کہ صرف پشاور کی دو بڑی کمپنیوں پر 45 ارب روپے کی اوور انوائسنگ کا الزام ہے، جن پر ایف آئی آرز درج کرکے تحقیقات شروع کر دی گئی ہیں۔ غفلت یا سہولت کاری کرنے والے کمرشل بینک بھی ریڈار پر ہیں۔
کمیٹی نے ایف بی آر کو اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ کے تحت تحقیقات کرکے رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کر دی جبکہ ساڑھے چار ارب روپے کے فنانسنگ گیپ پر بھی وضاحت طلب کر لی۔