غزہ تباہی سے ترقی کے لحاظ سے 16 سال پیچھے چلا گیا: اقوام متحدہ
اسلام آباد (قدرت روزنامہ)اسرائیلی فوج نے غزہ میں حماس کے ٹھکانوں کو نشانہ بنانے والے حملوں کی فوٹیج جاری کی ہے۔ غزہ کی حماس حکومت نے 25 اکتوبر کو کہا تھا کہ محصور فلسطینی علاقے پر رات کے وقت فضائی حملوں میں کم از کم 80 افراد جان کھو بیٹھے۔
اقوام متحدہ میں غزہ پر تلخ بیانات
فلسطینی میڈیا کے مطابق مغربی کنارے میں جنین پناہ گزین کیمپ کے قریب اسرائیلی حملے میں تین افراد جان سے گئے جب کہ متعدد زخمی ہو گئے ہیں۔
اقوام متحدہ نے بدھ کو جاری ایک بیان میں کہا ہے کہ غزہ کی پٹی میں ہونے والی تباہی سے علاقہ ترقی کے لحاظ سے 16 سال پیچھے چلا گیا ہے اور اس معاشی اثرات کا تخمینہ لگانا ’ناممکن‘ ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اقوام متحدہ کے تجارت اور ترقی کی ایجنسی نے فلسطینی معیشت پر سالانہ رپورٹ میں کہا ہے کہ ’غزہ ترقی کے لحاظ سے 16 سال پیچھے چلا گیا ہے اور انسانی صلاحیت اور ترقی کے حق کو سلب کیا گیا ہے۔‘
شام کے سرکاری میڈیا کے مطابق بدھ کی صبح جنوبی شام میں اسرائیلی حملوں میں آٹھ فوجی جان سے گئے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اسرائیلی فوج کا کہنا تھا کہ یہ حملے پہلے فائر کیے جانے والے راکٹوں کا جواب تھے۔
لبنان اور شام کے ساتھ اسرائیل کی شمالی سرحدوں پر لبنانی گروپ حزب اللہ اور اتحادی فلسطینی دھڑوں کے ساتھ مسلسل راکٹ اور توپ خانے کے تبادلے نے غزہ پر اسرائیلی جنگ میں ایک نیا محاذ کھلنے کا خدشہ پیدا کر دیا ہے۔
شام کے سرکاری میڈیا نے کہا کہ منگل کو اسرائیل نے مقبوضہ گولان کی پہاڑیوں سے فضائی جارحیت کی۔‘
انہوں نے کہا کہ حملوں میں سات فوجی زخمی اور مادی نقصان بھی ہوا۔
سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس نے کہا کہ 11 فوجی مارے گئے جن میں چار افسران بھی شامل ہیں۔
برطانیہ میں قائم جنگی مانیٹر نے کہا کہ حملوں نے ’اسلحے کے ڈپو اور ایک شامی فضائی دفاعی ریڈار کو تباہ کر دیا‘ اور انفنٹری یونٹ کو بھی نشانہ بنایا۔
شام کے سرکاری میڈیا نے بتایا کہ اتوار کو اسرائیلی حملوں نے شام کے دو اہم ہوائی اڈوں، دمشق اور حلب کو سروس سے محروم کر دیا۔
اقوام متحدہ کے امدادی کارکنوں نے خبردار کیا ہے کہ بدھ کی رات سے مزید امدادی سرگرمیاں جاری رکھنا ممکن نہوں ہوگا کیوں کہ کوئی ایندھن نہیں ہے۔
تاہم اسرائیلی فوج نے غزہ کے اندر درجنوں آئل ٹینکوں کی سیٹلائٹ کے ذریعے لی گئی تصویر شائع کرکے حماس پر تیل ذخیرہ کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔
اسرائیل کا کہنا ہے کہ حماس کے پاس اس وقت پانچ لاکھ لیٹر ایندھن موجود ہے۔
اسرائیلی فوج نے اقوام متحدہ کے امدادی ادارے (یو این آر ڈبلیو اے) کے جواب میں لکھا کہ ’حماس سے پوچھیں، کیا وہ آپ کو کچھ دے سکتے ہیں۔‘
اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم نے بدھ کو خبردار کیا ہے کہ مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں اسرائیلی کارروائیاں وسیع اور زیادہ خطرناک تنازع کی صورت اختیار کر سکتی ہیں۔
سلامتی کونسل اجلاس سے بدھ کو اپنے خطاب میں انہوں نے کہا کہ اسرائیل غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی کر رہا ہے ایسے میں پاکستان فوری اور غیر مشروط جنگ بندی کا مطالبہ کرتا ہے۔
اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب نے خبردار کیا کہ اسرائیلی کارروائی وسیع اور زیادہ خطرناک تنازع کی صورت اختیار کر سکتی ہے، صورتحال کے ذمہ دار وہی لوگ ہیں جو اس تنازع کو بڑھاوا دے رہے ہیں۔
سات اکتوبر 2023 سے جاری اسرائیلی فورسز کی بمباری میں اب تک 8 ہزار 500 سے زائد فلسطینی شہید اور 15 ہزار سے زائد زخمی ہو چکے ہیں۔
اسرائیلی بمباری میں شہید فلسطینیوں میں 2300 سے زائد بچے اور 1100 سے زائد خواتین بھی شامل ہیں۔
فلسطینی گروپ حماس کا کہنا ہے کہ بدھ کو رات کے وقت محصور فلسطینی علاقے پر اسرائیلی فضائی حملوں میں کم از کم 80 افراد کی اموات ہوئی ہیں۔
حماس کے میڈیا آفس کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ’راتوں رات غاصب (اسرائیل) کے چھاپوں کے نتیجے میں ہونے والے قتل عام میں 80 سے زائد افراد شہید اور سینکڑوں زخمی ہوئے۔‘
سات اکتوبر 2023 سے شروع ہونے والی غزہ پر اسرائیلی جنگ میں ہزاروں افراد جان سے جا چکے ہیں جن میں زیادہ تر عام شہری ہیں۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتیریش نے منگل کو اسرائیل پر غزہ میں بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزیوں کا الزام لگایا اور فوری جنگ بندی پر زور دیا ہے کیوں کہ اسرائیل حماس کے حملوں کے جواب میں فلسطینی سرزمین پر گولہ باری کر رہا ہے، اس بحران نے سلامتی کونسل کو تقسیم کر دیا ہے۔
اسرائیل نے سلامتی کونسل کے اعلیٰ سطح کے اجلاس سے قبل اقوام متحدہ کے سربراہ کی درخواست پر غصے کا اظہار کیا، جہاں فلسطینی وزیر خارجہ نے اس بات کی مذمت کی غزہ پر اسرائیلی جنگ میں عالمی قوانین کی خلاف ورزیاں کی گئیں جس میں ہزاروں افراد جان سے گئے جن میں اکثریت عام شہریوں کی تھی۔
سلامتی کونسل کے اجلاس کے آغاز میں گوتیریش نے کہا کہ سات اکتوبر کو حماس کے کے ’خوفناک‘ تشدد کے لیے کوئی عذر نہیں ہے لیکن ساتھ ہی انہوں نے فلسطینیوں کو اسرائیل کی جانب سے دی جانے والی ’اجتماعی سزا‘ کے خلاف بھی خبردار کیا۔
گوتیریش نے واضح طور پر اسرائیل کا نام لیے بغیر کہا کہ ’میں غزہ میں بین الاقوامی انسانی قانون کی واضح خلاف ورزیوں پر گہری تشویش میں ہوں۔ مجھے واضح کرنے دیں: مسلح تصادم کا کوئی بھی فریق بین الاقوامی انسانی قانون سے بالاتر نہیں ہے۔‘
گوتیریش نے یہ بھی کہا کہ حماس کے حملے ’خلا میں نہیں ہوئے‘ کیوں کہ فلسطینی ’56 سال سے گھٹن زدہ قبضے کا شکار ہیں۔‘
ان کے ریمارکس نے اسرائیلی وزیر خارجہ ایلی کوہن کو غصہ دلایا جنہوں نے گوتیریش کی طرف انگلی اٹھاتے ہوئے اور آواز بلند کرتے ہوئے اسرائیلی تاریخ کے سب سے مہلک ترین حملے میں مارے گئے چھوٹے بچوں سمیت شہریوں کا ذکر کیا۔
کوہن نے کہا ’سیکریٹری جنرل، آپ کس دنیا میں رہتے ہیں؟‘
تشدد کو قبضے سے جوڑنے کو مسترد کرتے ہوئے، کوہن نے کہا کہ اسرائیل نے 2005 میں انخلا کے بعد غزہ کو فلسطینیوں کو ’آخری ملی میٹر تک‘ دے دیا گیا تھا۔
اسرائیل نے اس کے فوراً بعد ہی اس غریب علاقے کی ناکہ بندی کر دی، جب سے حماس نے اقتدار سنبھالا، اور اس کا مغربی کنارے پر اب بھی قبضہ ہے۔
اقوام متحدہ میں اسرائیل کے سفیر جیلاد اردن نے گوتیریش سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ایکس پر لکھا کہ کہ اقوام متحدہ کے سربراہ نے ’دہشت گردی اور قتل کے بارے میں سمجھ بوجھ کا اظہار کیا ہے۔‘