جس مقبول لیڈر کو اس وقت گھیر رکھا ہے وہ ہمیشہ کیلئے گھرا نہیں رہے گا: حسین حقانی نے “خبردار ” کر دیا
لاہور (قدرت روزنامہ)آج ایک بار پھر قومی مفاہمت کی کسی بھی کوشش کو سیاسی عمل پر یقین نہ رکھنے والے سبوتاژ کردیں گے۔ نوازشریف، زرداری اور اسٹیبلشمنٹ، سب کو خبردار کرنے کی ضرورت ہے کہ جس مقبول لیڈر کو انھوں نے اس وقت گھیر رکھا ہے وہ ہمیشہ کیلئے گھرا نہیں رہے گا۔ سینئر تجزیہ کار حسین حقانی نے سیاسی حالات کی منظر کشی کر دی ۔
“جنگ ” میں شائع ہونیوالے اپنے کالم بعنوان “نواز شریف کی واپسی” میں حسین حقانی نے لکھا کہ پاکستان کے سابق وزیرا عظم ، نواز شریف کی فاتحانہ واپسی کی راہ میں نہ عدلیہ نے رکاوٹ ڈالی نہ انتظامیہ مزاحم ہوئی۔ اس سے اسٹیبلشمنٹ کے اعتراف کا اظہار ہوتا ہے کہ 2017ءمیں عدالتی شب خون کے ذریعے اُنھیں عہدے سے ہٹانا ایک غلطی تھی ۔ ان کی جلاوطنی سے واپسی یہ بھی ظاہر کرتی ہے کہ سیاسی انجینئرنگ کے ذریعےپاکستان کے پیچیدہ مسائل حل کرناکارِ لا حاصل ہے ۔ ریاستی ادارے جنھوں نے نوازشریف کو نکال کر نیا سیاسی نظام قائم کرنے کی کوشش کی تھی ، اب وہی اُنھیں مرکزی اسٹیج پر واپس آنے کی سہولت فراہم کررہے ہیں ۔ بے شک اُن کے پاس ایسا کرنے کی ایک فوری وجہ حالیہ دنوں اپنی ایک مشکل کو سائیڈلائن کرنا ہے ۔ لیکن اگر وہ گزشتہ 35 برسوں کے سیاسی بھونچال سے کوئی وسیع تر سبق سیکھنا چاہیں تو اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہوگا کہ مقبول عام سیاست دانوں کو اس طرح من مرضی سے سیاسی منظرنامے سے نہیں ہٹایا جاسکتا۔
اپنے کالم میں حسین حقانی نے مزید لکھا کہ بے نظیر بھٹو کو1990 ء میں اقتدار سے ہٹا کر نواز شریف کو لایا گیا، لیکن پھر 1993ء میں انھیں ہٹا کر دوبارہ بے نظیر بھٹو کو لانا پڑا۔ اسکے بعد جب 1996 ء میں بے نظیر کو ہٹایا گیا تو 1997ء میں ایک بار پھر نواز شریف اقتدار میں آگئے۔اسٹیبلشمنٹ نے 1999 ء میں مشرف کی فوجی بغاوت کو اس مسئلے کے دیرپا حل کے طور پر دیکھا جو دونوں لیڈروں کو باری باری موقع دینے سے پیدا ہوا تھا ۔ لیکن 2007ء میں پرویز مشرف کو بے نظیر بھٹو کے ساتھ مفاہمت کرنا پڑی ، اور آخر کار وہ اور نواز شریف، دونوں سیاسی میدان میں واپس آگئے۔پھر بے نظیر بھٹو کے المناک قتل کے بعد آصف زرداری کا اقتدار میں آنا، اور ان کے اور نواز شریف کے درمیان اعتماد کا فقدان مفاہمتی عمل کی خرابی کا باعث بنا۔ اور یہ صورتحال اسٹیبلشمنٹ کیلئے سود مند تھی ۔ اس دوران ایک تیسری سیاسی قوت پیدا ہوئی جس سے توقع کی جارہی تھی کہ وہ مقبول عام سیاست کے ذریعے اسٹیبلشمنٹ کے ایجنڈے کو پورا کریگی۔ آج ایک بار پھر قومی مفاہمت کی کسی بھی کوشش کو سیاسی عمل پر یقین نہ رکھنے والے سبوتاژ کردیں گے۔ شریف، زرداری اور اسٹیبلشمنٹ، سب کو خبردار کرنے کی ضرورت ہے کہ جس مقبول لیڈر کو انھوں نے اس وقت گھیر رکھا ہے وہ ہمیشہ کیلئے گھرا نہیں رہے گا۔ کسی بھی حقیقی مفاہمت کے عمل کیلئےاُن افراد کو شامل کرنا ہوگا جو اس وقت قید میں ہیں، انھیں سیاسی عمل سے نکال دیا گیا ہے اور ان کے سر پر نااہلی کی تلوار لٹک رہی ہے ۔ طویل کیریئر رکھنے والے پاکستانی سیاست دانوں کی طرح نواز شریف کی سیاسی اننگز میں اتار چڑھاؤ، سمجھوتے اور تنازعات، اور غلطیاں اور کامیابیاں شامل ہیں۔
اپنے کالم کے آخر میں حسین حقانی نے لکھا کہ پالیسی کے میدان میں تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ سیاسی درجہ حرارت کو کم کرنے اور قطبی رویوں کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ 21 اکتوبر کو مینارِ پاکستان پر نواز شریف کی مفاہمتی تقریر اس سمت میں پہلا اہم قدم تھا۔ لیکن مفاہمت کیلئے تمام فریقوں کی رضامندی ضروری ہے۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ سخت مؤقف اختیار کرنا اور وار کرنے کیلئے مناسب وقت کا انتظار کرنا ایک بہتر حکمت عملی ہے تو ہم پاکستان کی حالیہ تاریخ کے باب کا ایک مرتبہ پھر اعادہ دیکھیں گے ۔ ہوسکتا ہے کہ کہانی ذرا مختلف ہو اورکردار بدل جائیں۔