پرویز الٰہی دوسروں کی غلطیوں کی سزا بھگت رہے ہیں فیصلے ان کے ہاتھ میں ہوتے تو ۔۔۔۔سہیل وڑائچ نے اہم حقائق بیان کر دیئے
اسلام آباد (قدرت روزنامہ)چودھری پرویز الٰہی دوسروں کی غلطیوں کی سزا بھگت رہے ہیں فیصلے ان کے ہاتھ میں ہوتے تو وہ اسٹیبلشمنٹ کے اتحادی کےطور پر ہی سیاست کرتے۔پرویز الہٰی اسٹیبلشمنٹ سے طویل اور غیر مشروط وفاداری کے باوجود آج اسیری کاٹتے نظر آتے ہیں تو بے اختیار انہیں “شوہدا” کہنے پر دل کرتا ہے۔سینئر صحافی و تجزیہ کار سہیل ورائچ نے اہم حقائق بیان کر دیئے ۔
“جنگ ” میں شائع ہونیوالے اپنے کالم بعنوان “شوہدا پرویز الٰہی” میں سہیل وڑائچ نے لکھا ہے کہ پلاک ڈکشنری میں شوہدا کے اور معانی کے علاوہ اس کا مطلب ’بیچارہ،نمانا اور مظلوم ‘ہے۔ چودھری پرویز الٰہی کی عدالتوں کی پیشی کے موقع پر واسکٹ کے بغیر، بکھرے بالوں اور مچڑے ہوئے کپڑوں کی فوٹیج دیکھ کر مجھے ان پر بہت ترس آتا ہے، بڑھاپے میں اسیری کاٹنا ان کے مقدر میں ہوگا یہ کبھی سوچا تک نہیں تھا، وہ منہ میں سونے کا چمچ لیکر پیدا ہوئے ،مہنگے ترین گھروں میں رہے، پر تعیش گاڑیوں میں سفر کرتے رہے انکی سیاست ہمیشہ سے’ جیو اور جینے دو‘ پر مشتمل رہی وہ ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل کر سیاست کرتے رہے کوئی، صحافی یا سیاست دان اگر مقتدرہ کے خلاف مزاحمت کر رہا ہوتا تو چودھری اسے بلا کر سمجھاتے کہ یہ ٹھیک نہیں ہے۔ یہ خاندان نہ صرف خودمقتدرہ کا وفادار رہا بلکہ دوسروں کو بھی نصیحت کرتا رہا کہ اسٹیبلشمنٹ کی مخالفت ترک کر دیں اس طویل اور غیر مشروط وفاداری کے باوجود آج اگر وہ اسیری کاٹتے نظر آتے ہیں تو بے اختیار انہیں “شوہدا” کہنے پر دل کرتا ہے۔
اپنے کالم میں سہیل وڑائچ نے مزید لکھا کہ چودھری خاندان سے لاکھ سیاسی اختلاف سہی لیکن وہ ہمیشہ سے وضع داری اور رواداری کے امین رہے ہیں، آصف زرداری جیل میں تھے تو چودھری شجاعت نے انہیں بے نظیر بھٹو کے ساتھ ریسٹ ہاؤس میں رہنے کی سہولت فراہم کی یہی چودھری خاندان تھا جس نے نواز شریف کا اتحادی ہوتے ہوئے آصف زرداری کو منشیات کے جھوٹے مقدمہ میں پھنسانے کی مخالفت کی تھی، یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ جب شریف خاندان ابتلاء کے دور سے گزر رہا تھا اور چودھری خاندان جنرل مشرف کا اتحادی تھا اس وقت بھی وہ اقتدار میں بیٹھ کر اپنے مخالف شریف خاندان کے ساتھ اچھے سلوک کی وکالت ہی کرتے رہے۔ ایک زمانے تک چودھری شجاعت حسین اور چودھری پرویز الٰہی کی نہ صرف سیاست اکٹھی تھی بلکہ سوچ اور حکمت عملی بھی ایک ہوا کرتی تھی ۔پی ٹی آئی چیئرمین کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے بعد چودھری شجاعت اور چودھری پرویز کی سیاسی راہیں جدا ہو گئیں مگر اس بات کا کوئی ثبوت نہیں کہ سیاسی اختلاف سے ہٹ کر ان کے باقی نظریات میں بھی اختلافات پیدا ہو گئے ہیں گویا رواداری ،وضع داری دونوں کے اندر موجود ہے ۔
اپنے کالم کے آخر میں سہیل وڑائچ نے لکھا کہ چودھری پرویزالٰہی کہنے کو تو پی ٹی آئی کے صدر ہیں مگر عملی طور پر اپنی جماعت کی مزاحمتی سیاست سے کوسوں دور ہیں۔ سانحہ 9مئی میں ان کا کوئی کردار سننے میں نہیں آیا بلکہ وہ تو پی ٹی آئی چیئرمین کو بار بار سمجھاتے رہے کہ فوج سے بنا کر رکھیں۔وہ تو اسمبلیاں توڑنے کے بھی خلاف تھے مگر ہمارے دوست چودھری فواد، چیئرمین پی ٹی آئی اور دوسرے جارحیت پسند لیڈروں نے انہیں مجبور کرکے اسمبلی تڑواڈالی۔ آج صورتحال یہ ہے کہ چودھری پرویز الٰہی دوسروں کی غلطیوں کی سزا بھگت رہے ہیں فیصلے ان کے ہاتھ میں ہوتے تو وہ اسٹیبلشمنٹ کے اتحادی کےطور پر ہی سیاست کرتے۔میری ذاتی رائے میں اگر پی ٹی آئی نے بحران سے نکلنا ہےتو چیئرمین تحریک انصاف انہیں مقتدرہ کےساتھ معاملات طے کرنے کا ٹاسک دےتو ہو سکتا ہے کہ 9مئی اور تحریک انصاف کی دوسری فاش غلطیوں کا تدارک ہوسکے۔ملکی اداروں کو کسی نہ کسی دن تو مخالف سیاسی عناصر سے ڈائیلاگ کرنا ہو گا کیونکہ ہر لڑائی کا انجام تو ڈائیلاگ ہوتا ہے اگر تحریک انصاف سے ڈائیلاگ کرنا ہےتو چودھری پرویز الٰہی سے بہتر کوئی اور آدمی نہیں ہوسکتا۔