شہری نفرت، تشدد اور انتقام میں پل رہے ہیں،”بہتے خون کا مزہ لینے والے” کون ہیں ؟ سہیل وڑائچ نے”نشاندہی ” کر دی


اسلام آباد (قدرت روزنامہ)فرض کرلیں کہ نونی اقتدار میں آ جاتے ہیں، انصافی لیڈر اور اس کی جماعت کو جیلوں میں رکھتے ہیں، مقدمات چلاتے ہیں،سزائیں سناتے ہیں اور اپنے سارے بدلے چکاتے ہیں تو کیا اس سے ملک کا سیاسی بحران ختم ہو جائیگا؟ہرگز نہیں ۔۔۔سہیل وڑائچ بڑھتی نفرت ، تشدد اور انتقام پر کھل کر بول پڑے ۔
“جیو ” میں شائع ہونیوالے اپنے بلاگ بعنوان “بہتے خون کا مزہ لینے والے” میں سہیل وڑائچ نے لکھا ہے کہ تضادستان کے آج کے شہری بھی نفرت، تشدد اور انتقام میں پل رہے ہیں، انہیں احساس نہیں ہورہا کہ وہ نارمل انسان سے ابنارمل انسانوں میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ نونی چاہتے ہیں کہ عمران خان کو تن دیا جائے، نشان عبرت بنا دیا جائے، نہ اسے جیل سے نکالا جائے اور نہ اسے الیکشن میں حصہ لینے دیا جائے۔ دوسری طرف انصافی چاہتے ہیں کہ نواز شریف کو جیل میں ڈال دیا جائے اور اس کے حامیوں کو بولنے بھی نہ دیا جائے۔ یہ تفریق اور تضاد یہیں ختم نہیں ہوتا جنرل باجوہ اور انکے قبیل کے لوگ یہ کہتے نہیں تھکتے کہ اگر سینٹ، پارلیمان اور صوبائی اسمبلیوں کے ہزار بارہ سو اراکین کو مار دیا جائے تو ملک کے معاملات ٹھیک ہو جائیں گے۔ دوسری طرف کے انتہا پسند اس حد تک چلے جاتے ہیں کہ فوج کو ختم کرنا ہی ملکی مسائل کا حل ہے۔ نفرت کا یہ سلسلہ اس قدر گہرا ہے کہ فوج کے بارے میں تصور ہے کہ وہ عوام کو بلڈی سویلین سمجھتی ہے اور دوسری طرف کئی سویلین فوج کے جرنیلوں کو سوچ اور سمجھ سے عاری خیال کرتے ہیں۔ ایک وقت تھا کہ میڈیا کی بڑی عزت تھی مگر نفرت کے اس ماحول میں میڈیا بھی ایسے ہی حالات کاشکار ہے۔ انصافی سرعام کہتے ہیں کہ میڈیا بِک چکا ہے، ہر کسی پر الزام لگا دیتے ہیں کہ وہ لفافہ ہے۔ فیس بک اور ٹویٹر پر پڑھے لکھے لوگ ایک دوسرے کو گالیاں لکھ رہے ہیں۔
اپنے بلاگ میں سہیل وڑائچ نے مزید لکھا کہ یاد کریں کہ کبھی یورپ کے ممالک میں نفرت، دشمنی، عناد یا ایک دوسرے کو مٹانے کی خواہش موجودتھی، فرانس اور انگلینڈ کے درمیان سو سال تک جنگ ہوتی رہی مگر ایک وقت ایسا آیا کہ یورپ میں یہ احساس جاگا کہ نفرت کی بجائے امن اور محبت کا آپشن اپنایا جائے۔ نفرت میں انسان صحیح طرح سے سوچ ہی نہیں پاتا۔ آج کے تضادستان میں لوگ نفرت سے بھرے ہوئے ہیں اس لئے وہ جو بھی سوچ رہے ہیں وہ مسائل کو حل نہیں کرے گا بلکہ اور پیچیدہ بنا دے گا۔فرض کرلیں کہ نونی اقتدار میں آ جاتے ہیں، انصافی لیڈر اور اس کی جماعت کو جیلوں میں رکھتے ہیں، مقدمات چلاتے ہیں،سزائیں سناتے ہیں اور اپنے سارے بدلے چکاتے ہیں تو کیا اس سے ملک کا سیاسی بحران ختم ہو جائیگا؟ ہر گز نہیں۔ اب دوسرا رخ دیکھ لیں انصافیوں نے نونیوں کے لیڈر کو جیل میں رکھا، 2018ء کا الیکشن اس کی اسیری کے دوران ہوا، اس وقت فوج اور انصافی ایک صفحے پر تھے کیا وہ نونیوں کو سیاسی طور پر ختم کر سکے؟ ہر گز نہیں۔ ایک اور پہلو پر غور کرلیں کہ اسٹیبلشمنٹ چاہتی ہے کہ ملک سے سیاسی اور معاشی بحران ختم ہو۔ کیا انصافیوں کو جیلو ں میں رکھ کر سیاسی بحران ختم ہو جائیگا۔ ہرگز نہیں، بلکہ یہ اور بڑھے گا۔ انصافیوں کی اپروچ بھی سراسر غلط ہے، کبھی فوج کو گالی ، کبھی میڈیا پر الزام تراشی، کبھی نونیوں کیخلاف نفرت انگیز رویہ۔ کیا اس سے وہ اقتدار حاصل کرلیں گے؟ ہرگز نہیں۔
اپنے بلاگ کے آخر میں سہیل وڑائچ نے لکھا کہ غصے سے بھرے اس ماحول میں دنیا کی طرف دیکھنا ہوگا کہ انہوں نے نفرت، انتقام اور گالیوں سے اپنے مسائل حل کئے یا مصالحت اور مفاہمت سے۔ یورپ نے عالمی جنگیں لڑنے کے بعد بالآخر اپنے دشمنوں جرمنی اور جاپان کی تعمیر نو میں حصہ لے کر مفاہمت اور مصالحت کا راستہ اپنایا۔ ہمیں بھی تضادستان کے اندر اگر تضادات کو ختم کرنا ہے تو مفاہمت اور مصالحت کا رویہ اپنانا ہوگا۔ سیاسی جماعتوں اور ان کے کارکنوں کو نفرت اور انتقام کے رویے ترک کرنا ہوں گے ، ایک دوسرے کو برداشت کرنا ہوگا، دنیا میں کبھی ایسا نہیں ہوا اور نہ ہی ہوگا کہ پوری قوم ہی ایک جماعت کی حامی بن جائے اور اس کے سارے مخالف صفحہ ہستی سے مٹ جائیں۔ منتخب حکومتیں گرانا اور نئے نئے تجربے کرنا بیکار ثابت ہوا ہے، سیاست کو نیچرل انداز میں چلنے دیں۔