نواز شریف نےایک سابق آمر کو عدالت لےجانے کی قیمت دھرنے، ڈان لیکس اور نااہلی کی صورت ادا کی ،اب یہاں سے آگے کا راستہ کیا ہے؟ انجینئر خرم دستگیر بول پڑے


اسلام آباد (قدرت روزنامہ)انجینئر خرم دستگیر کے مطابق نواز شریف نےایک سابق آمر کو 2013 ء میں عدالت میں لےجانے کی قیمت 2014 ء کے دھرنے، ڈان لیکس اور3 سال بعد نااہلی کی صورت ادا کی ۔اب یہاں سے آگے کا راستہ کیا ہے؟ مہنگائی سب سے بڑا چیلنج ہے، لیکن یہ ایک علامت ہے، اصل مرض نہیں۔ آج جب نواز شریف آئے ہیں تو ان کے سامنے بے دم سیاسی نظام، چوٹ کھائی ہوئی عدلیہ، چُور چُور بیوروکریسی، گھائل نظام اور دقیانوس معیشت ہے۔
“جیو ” میں شائع ہونیوالے اپنے بلاگ “نواز شریف کی دوبارہ واپسی” میں انجینئر خرم دستگیر نے لکھا ہے کہ نواز شریف محاورۃً پاکستانی سیاست کے لزارس (Lazarus) ہیں، یعنی اُنھیں کئی سیاسی زندگیاں نصیب ہوئی ہیں۔ وہ ہر مہلک گھاؤ سے بچ نکلے:1993 کے شب خون، 1999 کی فوجی بغاوت، 2017 کی نااہلی، 2 طویل جلا وطنیوں، کئی ماہ پر محیط دھرنے، ایک عشرے تک میڈیا پر کردار کشی، طویل حراست اور جیل۔ بایں ہمہ، بہت سے لوگ جسے قصۂ پارینہ سمجھتے تھے، وہ اب پاکستانی سیاست کا مستقبل بن چکا ہے۔ آج نواز شریف تمام الزامات سے بری ہو کر واپس آ چکے۔
موجودہ صدی میں پاکستان میں ہونے والے چار عام انتخابات میں سے3 میں نواز شریف کو حصہ نہیں لینے دیا گیا۔ 2013ء کے عام انتخابات، جن میں انھوں نے حصہ لیا، وہ وزیر اعظم بن گئے، وہ پاکستانی تاریخ کی سب سے کامیاب حکومت ثابت ہوئی۔ نواز شریف کی قیادت میں 2013-2017 کے دوران پاکستان کو 4 بڑے چیلنجز کا سامنا تھا جن پرماضی میں کوئی توجہ نہیں دی گئی، دہشت گردی، مہنگائی، کراچی میں ٹارگٹ کلنگ اور لوڈ شیڈنگ۔
انجینر خرم دستگیر نے اپنے بلاگ میں لکھا کہ 1985 سے لے کر 2023 تک، یعنی ان38 برسوں کے دوران نواز شریف9سال سے زیادہ مدت کیلئے وزیر اعظم نہ رہ سکے۔ نواز شریف نے اپنا سیاسی کیریئر پاکستان کے بحران زدہ جمہوری، آئینی، معاشی اور گورننس کے خستہ حال ڈھانچے کو درست کرنے میں گزارا۔ چاہے یہ 1989ء میں افغانستان سے سوویت یونین کے انخلاء کے مضمرات ہوں، 1998 ء میں بھارت کے ایٹمی دھماکے ہوں یا 1999ء کی کارگل جنگ اور 2007 ء سے لے کر 2014 ء تک دہشت گردی کی ہولناک لہر ہو۔نواز شریف کی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات کی کمان نماجہت بھی اپنی نوعیت کا ایک منفرد موضوع ہے۔ اُنھوں نے اس کی نرسری میں پروان چڑھنے والے سیاست دان سے لے کر جمہوریت نواز ہیرو تک کا ایک طویل، مشکل اور صبر آزما سفر طے کیا ہے۔ ممکن ہے کہ کسی موقع پر وہ ناکام رہے ہوں لیکن ان کے سفر کی سمت میں کمال یکسوئی رہی۔ اُنھوں نے وہ کچھ کر دکھایا جس کا اس پاک سر زمین پر کوئی خواب تک نہیں دیکھ سکتا تھا :ایک سابق آمر کو 2013 ء میں عدالت میں لے گئے ، اور پھر اس کی قیمت 2014 ء کے دھرنے، ڈان لیکس اور3 سال بعد نااہلی کی صورت ادا کی۔
اپنے بلاگ کے آخر میں انجینئر خرم دستگیر نے لکھا کہ2011-12کے عمران خان منصوبے نے ریاستی اداروں کی ذاتی پسند پر مبنی اور آمرانہ مزاج کی حامل بنیاد کو بے نقاب کر دیا۔ اب یہاں سے آگے کا راستہ کیا ہے؟ مہنگائی سب سے بڑا چیلنج ہے، لیکن یہ ایک علامت ہے، اصل مرض نہیں۔ آج جب نواز شریف آئے ہیں تو ان کے سامنے بے دم سیاسی نظام، چوٹ کھائی ہوئی عدلیہ، چُور چُور بیوروکریسی، گھائل نظام اور دقیانوس معیشت ہے۔ خود سر اورسچائی سے لاتعلق میڈیا، چاہے الیکٹرانک ہو یا سوشل، ان میں ہر ایک بحران کا لازمی حصہ رہا ہے۔ نواز شریف کی واپسی اس بات کی مضبوط ضمانت ہے کہ انتخابات ہوں گے۔مندرجہ بالا تباہ کن ناکامیوں نے بہر حال ہمیں یہ دکھادیا ہے کہ آگے کہاں جانا ہے: آزاد معیشت، زراعت کی جدید کاری، آئین اور پارلیمنٹ کی بالادستی کے مروجہ اصولوں کی طرف بڑھنا ہے جنھیں ہم اب تک اپنا نہیں پائے ۔ اس لیے نوا زشریف کے کندھوں پر بہت بھاری فرائض عائد ہوتے ہیں۔