جاننا چاہتے ہیں فیض آباد دھرنے کا ماسٹر مائنڈ کون تھا،چیف جسٹس


اسلام آباد (قدرت روزنامہ) چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ جاننا چاہتے ہیں کہ فیض آباد دھرنے کا ماسٹر مائنڈ کون تھا،پورے ملک کو ایک جماعت نے یرغمال بنائے رکھا ،حکومت میں تحقیقات کرنے کی قابلیت ہی نہیں ہے،ہمارے لوگ ملک اور دین دونوں کو بدنام کر رہے ہیں۔
چیف جسٹس پاکستان نےکہا کسی کو اس ملک کی پرواہ نہیں ہے، یہ ملک صرف اشرافیہ کیلئے نہیں ہے، 70 سال سے ملک پر اشرافیہ کا قبضہ ہے۔
آج سپریم کورٹ میں فیض آباد دھرنا نظر ثانی سے متعلق کیس کی سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس امین الدین خان اور جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل 3 رکنی بینچ نی کی ۔
دوران سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اٹارنی جنرل منصورعثمان اعوان کوہدایت کی کہ پہلے حکمنامہ دیکھ لیں جس پراٹارنی جنرل نے گزشتہ سماعت کا حکمنامہ پڑھا۔
اس موقع پرچیف جسٹس نےاستفسار کیا کہ کیا ابصارعالم یہاں ہیں؟ جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ابصار عالم راستے میں ہیں۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس نے پوچھا کہ ابصار عالم کا فیض آباد دھرنے کے وقت عہدہ کیا تھا؟ جس پراٹارنی جنرل نے بتایا کہ فیض آباد دھرنے کے وقت ابصار عالم پیمرا کے چیئرمین تھے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سماعت کے دوران ریمارکس میں کہا کہ ابصار عالم نے وزرات دفاع کے ملازمین پر سنجیدہ الزام لگائے ہیں،کیا اب بھی آپ نظرثانی درخواستیں واپس لینا چاہتے ہیں؟
اس پر اٹارنی جنرل منصورعثمان اعوان نے عدالت عظمیٰ کو بتایا کہ اس حوالے سے ا یک فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی تشکیل دی جا چُکی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اگر ابصار عالم کے الزامات درست ہیں تو یہ معاملہ آپ سے متعلق ہے،فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کب قائم ہوئی ہے؟
اس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی 19 اکتوبر کو قائم کی جا چکی ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کمیٹی بناکر صرف رپورٹس آتی رہیں گی ہونا کچھ نہیں ہے ۔
چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ آپ سمیت سب کہہ رہے ہیں کہ فیض آباد دھرنا کیس کا فیصلہ ٹھیک ہے،حکومت کی جانب سے بنائی گئی کمیٹی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے،کیا کمیٹی نے جو قواعد و ضوابط بنائے ہیں ان کے تحت سب ذمہ داروں سے حساب لیا جائے گا؟
چیف جسٹس قاضی فائض عیسیٰ نے کہا کہ پورے ملک کو ایک جماعت نے یرغمال بنائے رکھا جبکہ حکومت میں تحقیقات کرنے کی قابلیت ہی نہیں ہے،بچوں سے پوچھیں تو وہ بھی بہتر جواب دے سکتے ہیں، بیرون ملک سے ایک شخص امپورٹ کرکے ملک کو یرغمال بنایا گیا اور وہ واپس لوٹ گیا۔
اس موقع پر جسٹس اطہر من اللہ نے استفسارکیا کہ کیا اب ریاستی امور آئین کے مطابق چلائے جارہے ہیں ؟ جبکہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کمیٹی کے ٹی او آرز سے تو لگتا ہے آپ نے سب کو بری کر دیا ہے، دھرنا کیس میں عدالت نے پوری ہسٹری دے دی، ہم نے پوچھا تھا دھرنے کا ذمہ دار کون تھا۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا حکومت نے کمیٹی کا ایک بھی ٹی او آر درست نہیں بنایا، حکومت چاہتی ہے سب کو ذمہ دار ٹھہرا کر کسی کیخلاف کاروائی نہ ہو، اربوں روپےکا نقصان ہوا مگر حکومت کو پرواہ ہی نہیں، کمیٹی رپورٹ کا کیا ہوگا؟ کیا کمیٹی رپورٹ کابینہ میں پیش ہوگی؟ کمیٹی کی رپورٹ عدالت میں پیش ہوگی تاکہ کارروائی ہوسکے؟
انہوں نے مزید کہا ہم کمیٹی رپورٹ کا جائزہ نہیں لیں گے، عدالت آپ کا کام کیوں کرے؟ فیض آباد دھرنا فیصلے پرعملدرآمد کرانا حکومت کا کام ہے، ایڈیشنل سیکرٹری داخلہ کمیٹی کا حصہ ہیں، وہ کیا کام کریں گے؟ کتنے پل گرائے گئے؟کتنا نقصان ہوا؟ یہ سب کون دیکھے گا؟
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا حکومتی کمیٹی کے ٹی او آرسے تو سب بری ہو جائیں گے، معذرت کے ساتھ لیکن یہ کمیٹی قابل قبول نہیں ہے، عدالت اس فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی سے خوش نہیں ہے، حکومت کی بنائی گئی کمیٹی غیرقانونی ہے۔
اٹارنی جنرل منصور عثمان نے کہا حکومت نے کمیٹی صرف تحقیقات کیلئے بنائی ہے، کمیٹی اپنی رپورٹ کیساتھ سفارشات دے گی، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی صرف ایک کاغذ کا ٹکڑا ہے، ایک کاغذ کے ٹکڑے سے ملک نہیں چلایا جاسکتا، ہمیں بتائیں کون سے رولزآف بزنس اورکس قانون کے تحت کمیٹی بنائی گئی، جس طرح حکومت معاملات چلانا چاہ رہی ہےایسے نہیں ہوگا۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا عدالت یہ قراردے گی کہ حکومت نے فیض آباد دھرنا کیس میں کچھ نہیں کیا، ہم جاننا چاہتے ہیں فیض آباد دھرنے کا ماسٹرمائنڈ کون تھا؟ 6 فروری 2019 سے آج تک فیصلے پرعملدرآمد نہیں ہوا، اس طرح تو یہاں ہر کوئی کہے گا میں جو بھی کروں مجھےکوئی پوچھ نہیں سکتا، حکومت سیدھا سیدھا کہہ دے کہ ہم کام نہیں کریں گے۔
اٹارنی منصور عثمان نے کہا پاکستان کمیشن آف انکوائری ایکٹ کے تحت کمیشن بنائیں گے، جیسے عدالت حکم کرے گی اس پر عمل ہو گا، جس پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہا آئین پر عملدرآمد کرانا حکومت کی ذمہ داری ہے، حکومتی کمیشن کی تحقیقات شفاف ہونی چاہئیں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ماضی سے سیکھ کر حکومت ایسا اقدام کرےکہ مستقبل میں ایسے واقعات نہ ہوں، جب قانون ہاتھ میں لینے والوں کو سزا ملے گی تو لوگ سبق لیں گے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پوچھا کیا حکومت واقعی فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے پر عمل کرنا چاہتی ہے؟ کون سا قانون کہتا ہے نظرثانی دائر ہو جائے تو فیصلے پر عمل نہیں ہو گا؟ کیا حکومت نے کینیڈین حکومت سے رابطہ کیا تھا؟ کیا لوگ کینیڈا سے یہاں آکر دھرنے دیں کوئی نہیں پوچھے گا؟ کیا پاکستانی کینیڈا جاکر اس طرح دھرنے دے سکتے ہیں؟ دوسرے ممالک تو اپنے ایک ایک شہری کی حفاظت کرتے ہیں، پاکستان میں کوئی نہیں پوچھتا،جو چاہےکرو، کبھی دبئی چلے جاؤ، کبھی دوسرے ملک، ہمارے لوگ ملک اور دین دونوں کو بدنام کر رہے ہیں۔
چیف جسٹس پاکستان نےکہا کسی کو اس ملک کی پرواہ نہیں ہے، یہ ملک صرف اشرافیہ کیلئے نہیں ہے، 70 سال سے ملک پر اشرافیہ کا قبضہ ہے، ایک شخص کو امپورٹ کرنےکا مقصد کیا اس وقت کی حکومت کوبرطرف کرنا تھا؟ کیا دوبارہ ایک شخص کو امپورٹ کرکے مستقبل میں بھی خدمات لی جائیں گی؟ کیا کینیڈا سے آئے اس شخص نے اپنے ٹکٹ کی ادائیگی خود کی تھی؟ ممکن ہے کمیٹی کی تحقیقات سے یہ بھی تعین ہو جائے کہ پیمرا، الیکشن کمیشن اس وقت آزاد نہیں تھے۔