ولور کے روک تھام کے لیے سرکاری سطح پر کوئی قانون سازی نہیں۔
تحریر:عطا کاکڑ
سردار بہادر خان وومن یونیورسٹی کوئٹہ میں آرٹس ڈپارٹمنٹ میں پڑھنے والی ملائکہ جمعہ خان پچھلے دو سال سے اپنے ہنر کے ذریعے جہیز یا پشتون معاشرے میں ” ولور” کہلائے جانے والے رواج کو منظرعام پر لارہی ہے۔ وہ کہتی ہے کہ اس وقت پشتون معاشرے میں ہزاروں ایسے نوجوان ہیں جن کی عمر شادی کی ہوچکی ہے لیکن معاشرے میں رائج رسم ولور کی وجہ شادی سے سے محروم ہیں۔
” ہمارے معاشرے میں اس وقت جتنا جہیز یا ولور لیا جاتا ہے وہ کسی بھی معاشرے میں نہیں ہے، میں اپنی پینٹنگز کے ذریعے یہ پیغام پھیلانا چاہتی ہوں کے خدارا اپنے بچوں کے ساتھ ظلم نہ کریں نہ ولور کے نام پر اپنی بیٹیوں کا سودا کریں۔”
ملائکہ نے بتایا کہ وہ کئی ایسی نوجوان لڑکیوں کو جانتی ہیں جن کی منگنی دو تین سال پہلے ہوچکی ہے لیکن ان کے منگیتر پر ولور اتنا رکھ دیا گیا ہے کہ وہ اس بیروزگاری کی مہنگائی میں صرف اپنا ولور پورا کرنے کے لیے خلیجی ممالک میں مزدوری کرہے ہیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ ایسے نوجوان بھی موجود ہیں جن کی شادی محض اس بنیاد پر نہیں کرائی جاتی کہ جب تک وہ روزگار پر نہ ہو یا انکی سرکاری نوکری نہیں لگتی جس کی بنیادی وجہ شادی بیاہ میں حد سے زیادہ خرچے اور مطالبات کے ساتھ ساتھ اتنا ولور رکھنا جو کسی بھی نوجوان کے لیے پورا کرنا اسان نہیں ہے۔
پشتون معاشرے میں ولور کا مطلب ہے کہ لڑکی کی رشتے کے لیے کوئی رقم مقرر کرنا جسے عام طور پر حق مہر کہا جاتا ہے۔
تاریخ دان اور مورخ سید بادشاہ نے بتایا کہ اگرچہ دور جدید میں میں ولور برا عمل سمجھا جاتا ہے لیکن تاریخی طور پر دیکھا جائے تو پشتون معاشرے میں یہ رسم سالوں سے رائج ہے۔ انہوں بلوچستان کی تاریخ کے حوالے سے سب سے مستند ماننے والے تاریخی اثار ” دی گزٹٗئیر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ،
انگریزوں نے جب بلوچستان کے رسم رواج کے بارے میں لکھا تو انہوں نے باقاعدہ طور پر پشتون معاشرے میں شادی کے حوالے سے میں بھی لکھا ہے، گزیٹئیر میں لکھا گیا ہے کہ پشتون معاشرے میں زیادہ تر لوگ جلدی شادی کرتے تھے لیکن، ولور جہیز کی وجہ سے بہت سارے نوجوانوں کو درمیانی عمر تک انتظار کرنا پڑتا تھا۔ ولور یہ فرسودہ رسم ہی نہیں بلکہ پیسوں کے عوض بیٹیوں کا سودا ہے۔
کوئٹہ میں سماجی کارکن ثنا درانی کا کہنا ہے کہ ولور دور حاضر میں ایک کاروبار کی شکل اختیار کرچکا ہے۔ ان کے مطابق اگر تاریخی طور پر دیکھا جائے تو ولور اس لیے لیا جاتا تھا کہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ والدین جس بندے کے حوالے اپنی بیٹی کو کرہے ہیں آیا وہ اس کی کفالت بھی کرسکتا ہے یا نہیں۔ ” بہت ساری بہنیں، بہت ساری بچیاں ہیں جن کی شادی کی عمر گزرچکی ہے۔ کیونکہ ان کی ولور بہت زیادہ ہے۔ اگر کسی غریب گھرانے میں دی گئی ہے، تو منگیتر دن رات محنت مزدوری کرتا ہے، اپنے اوپر بے تحاشا بوجھ ڈالتا ہے کہ کسی طرح ولور کی رقم کما سکے۔”
چمن سے تعلق رکھنے والا 26 سالہ نوجوان حمید اللہ پچھلے تین سال سے بلوچستان کے درالوحکومت کوئٹہ میں ایک مقامی ہوٹل میں بطور ویٹر کام کرہے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ان کے ابائی علاقے چمن میں تین سال پہلے اسکی منگنی 15 لاکھ روپے کے عوض طے ہوئی تھی لیکن تین سال گزرنے کے باوجود وہ اس قابل نہیں کہ 15 لاکھ روپے کا ولور ادا کرسکیں۔
” تین سال پہلے منگنی طے ہوئی تھی 15 لکھ ولور رکھی گئی۔ لیکن تین سال میں میں صرف پیسے بچا بچا کر 5 لاکھ ہی جمع کرپایا ہوں۔ دوستوں نے کئی دفعہ مشورہ دیا کہ دبئی جاوں لیکن دوبئ جانے کے لیے بھی تو پیسے چاہیے، کئی دفعہ رشتہ دار میرے سسر کے پاس گئے ہیں لیکن وہ کہتا ہے کہ جب تک ولور پور نہ ہو میں شادی نہیں کرا سکتا۔ “
ولور کے خلاف پشتون نوجوانوں کے مشترکہ جدودجہد۔
اسلام اباد کے رہائشی موسی کلیم کی تنظیم ‘یونا ئٹڈ ہمدرد یوتھ ‘ تنظيم پچھلے پانچ سال سے پشتون معاشرے میں ولور کے رسم کی خاتمے کے لیے کوشاں ہیں ان کے مطابق وہ خود اس ازیت سے گزرچکے ہیں جب ان کی ولور آج سے 6 سال پہلے 13 لاکھ رکھی گئی تھی۔
” میں اپنے خاندان کی بات کروں تو اس بے روزگاری میں بھی عام طور پر 13 سے 15 لاکھ ولور لیا جاتا ہے۔ اسی طرح 30 لاکھ تک بھی ولور لینے کے کیسز سامنے آئے ہیں۔ اتنی بڑی رقم رکھنے کے بعد اکثر نوجوان یورپ اور خلیجی ممالک کا رخ کرتے ہیں، آٹھ سے دس سال محنت کرنے کے باوجود نوجوان مشکل سے اپنا ولور پورا کرتے ہیں، جبکہ علاقے میں بھی زیادہ تر نوجوانوں کا تعلیم کا قیمتی وقت ولور کمانے میں گزجاتا ہے۔”
موسی کلیم کے مطابق پچھے پانچ سالوں کے دوران انکی تنظیم ان کی تنظیم نے پاکستان کے مختلف پشتون علاقوں میں عوامی نمائندوں نوجوانوں اور علما کرام کے کے ذریعے اگاہی مہم چلائی ہے جن کے بہت زیادہ مثبت اثرات بھی سامنے آئے ہیں۔ “پچھلے پانچ سال میں 100 سے اوپر ہمارے ساتھ ایسے بھی لوگ جڑے ہیں جنہوں نے لاکھوں روپے کا ولور ہمارے اگاہی مہم کے اسٹیج سے معاف کیا ہو جبلکہ عام طور پر ہمارے مہم سے اگاہی پانے والے افراد کی تعداد ہزاروں میں ہیں۔ موسی کلیم کا کہنا ہے کہ انہوں بلوچستان کے پشتون علاقوں تک(نام دیجیئے گا) اس مہم کو پہنچانے کی کوشش کی ہے لیکن وہ اب تک بلوچستان میں اپنی علاقائی تنظیمیں بنانے میں کامیاب نہیں ہوئے تاہم وہ اس پر کام کرہے ہیں۔ وہ پر امید کہ ایک دن اس فلاحی عمل میں پشتون نوجوان مرد اور خواتین بڑھ چڑھ کر حصہ لینگے اور اس فرسودہ رسم کا خاتمہ کرینگے ـ
اجتماعی شادیاں
کوئٹہ مین اجتماعی شادیاں ـ نامی کمیٹی پچھلے 12سال سے ان نوجوانوں کی اجتماعی شادیاں کرا رہی ہے جو مالی طور پر کمزور ہو۔ اس ضمن میں روان سال جولائی کے مہنے میں اس کمیٹی نے 18 ان جوڑوں کی اجتماعی شادیاں کی جو مالی طور پر کمزور تھے۔
اجتماعی شادیوں کے کمیٹی کے ایک رکن علامہ سید ہاشم موساوی کا کہنا ہے کہ اب تک ان کی کمیٹی 300 نوجواں جوڑوں کی اجتماعی شادیاں کرا چکی ہے۔ جبکہ ماضی میں بھی بلوچستان میں اجتماعی شادیاں منعقد کی جاچکی ہیں۔
جہیز اور ولور میں فرق ؛
ولور پشتو زبان کا لفظ ہے جو عام طور پر افغانستان بلوچستان اور خبیر پشتونخوا میں زمانہ قدیم کا قائم کردہ رواج ہے، جسے بلوچی زبان میں ۔ لب ـ۔ کہا جاتا ہے جس میں لڑکی کے گھر والے اپنے بہن بیٹی کے بدلے ایک مخصوص رقم لیتے ہیں جبکہ جہیز میں لڑکی والوں کو دیا جاتا ہے ۔
ولور کے روک تھام کے لیے مقامی سطح پر اقدامات
کوئٹہ کے مقامی صحافی عبد الکریم نے اپنے ایک تحقیقاتی رپورٹ بیان کیا ہے کہ ولور کے روک تھام کے لیے بلوچستان کے پشتون سیاسی اور قبائلی رہنماوں نے مشترکہ طور پر کاوش کی۔ سردار عبدالرشید خان زرکون قبیلے کے رہنما ہے انہوں نے اپنے قبیلے اور پشتون سیاسی رہنما وں کے ساتھ مل کر والور کے معاملے اور اس کے روک تھام کے خلاف قدم اٹھائی۔ انہوں نے 21 مئی 2023 کوبلوچستان کے ضلع کوہلو میں سیاسی اور قبائلی رہنماوں کی مشاورت کے ساتھ ولور کی حد مقررکرنے اور خواتین کو جائیداد میں حصہ دینے سمیت متعدد فیصلے کئے گئے ہیں۔ جن میں ـ جن کے تحت ولور کی زیادہ سے زیادہ رقم 6 لاکھ روپے مقرر کی گئی ہے اور شادی بیاہ پوش (دلہن اور اس کے خاندان کی عورتوں کو کپڑوں کے جوڑے دینا)، کڑیچو(دولہے کے خاندان کا دلہن کے گھر جاکر میٹھے پکوان بنانا)، سوٹ دوپٹہ (دلہن کے سر پر دوپٹہ ڈالنے کے ساتھ رقم وصولی)، گیٹ کھولنے (باراتیوں کا راستہ روکنا) کی رسومات کو ختم کردیا گیا ہے۔ ان کے علاوہ دولہا کے خاندان کے لیے شادی کے دن دلہن کے خاندان کو بطور دعوت صرف دو دنبے دینے کی حد مقرر کی گئی ہے ۔
ولور کے روک تھام کے لیے سرکاری سطح پر قانون سازی نہیں ہوئی
عورت فاونڈئشن کے ریذیڈنٹ ڈائریکٹر علاؤالدین خلجی کے مطابق کہتے ہیں ولور پشتون معاشرے کے لیے ایک ناسور کی شکل اختیار کرچکا ہے لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں جہیز کے لیے قانون موجود ہے جبکہ ولور کے لیے کوئی قانون موجود نہیں۔ ان کے مطابق اس سماجی مسئلے کے لیے آواز بلند کرنے اور اس کے لیے قانون سازی کی ضرورت اشد ضروری ہے۔