تربت یونیورسٹی کو انتظامیہ نے چھاﺅنی بنا رکھا ہے، منظور بلوچ کو لیکچر دینے سے روکنا علم دشمنی ہے، بساک


تربت(قدرت روزنامہ)تربت یونیورسٹی کی انتظامیہ کی جانب سے بلوچستان یونیورسٹی کے پروفیسر اور تربت یونیورسٹی کے رکن سینیٹ کو تربت یونیورسٹی داخل ہونے سے روکنا تعلیم دشمنی اور بلوچ اقدار کی پامالی ہے جس کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہیں۔ تربت یونیورسٹی میں بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کے زیر اہتمام” بلوچ اسٹوڈنٹس اور عصری تقاضے” کے عنوان پر لیکچر کا انعقاد کیا گیا جس کےلیے پروفیسر منظور بلوچ کو بطور مہمان اسپیکر مدعو کیا گیا۔ مگر بدقسمتی کے ساتھ جامعہ انتظامیہ نے انہیں لیکچر سے روکنے کےلیے گیٹ پر ہی روکااور ان کے ساتھ چیف سیکیورٹی آفیسر اور رجسٹرار یونیورسٹی نے ہتک آمیز رویہ اپنایا۔ اس کے بعد یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے اپنے ہی سینیٹ کے رکن کو مشروط طور پر داخلہ کی اجازت دینے کی کوشش کی اور کہا کہ مکران میڈیکل کالج کے طلبہ کو یونیورسٹی میں لیکچر اٹینڈ کرنے کی اجازت نہیں اس لیے وہ اکیلے ہی اندر آ سکتے ہیں، جس پر پروفیسر منظور بلوچ نے ان کی اس شرط کو ماننے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ میں تربت میں یونیورسٹی کے طالبعلموں سے علمی مکالمہ اور گفتگو کے لئے آیا ہوں وائس چانسلر کے ہاں چائے پینے نہیں آیا ہوں۔ بعد ازاں پروفیسر منظور بلوچ نے احتجاجاً واک آو¿ٹ کیا اور گیٹ سے واپس چلے گئے جو کہ تمام تر اخلاقی اقداروں کی خلاف ورزی ہے۔ تربت یونیورسٹی کو انتظامیہ نے مکمل طور پر ایک جیل اور حوالات کی شکل دے رکھی ہے جہاں پر طلباءکے داخلے پر غیر قانونی پابندی اور سختیاں عائد ہیں۔ دنیا بھر مین یونیورسٹیاں علمی مکالمے، لیکچرز، سیمینارز اور ورکشاپس کے مراکز ہوتے ہیں لیکن تربت یونیورسٹی کے وی سی، پرو وائس چانسلراور دیگر نے شاہ سے زیادہ شاہ کے وفا داری کرتے ہوئے اسے مکمل طور پر ایک جیل خانہ بنا دیا ہے جہاں پولیس کے اہلکار، چیف سیکیورٹی آفیسر اور اس کے ماتحتوں کو اخلاق اور شاہستگی سے کوئی وابستگی نہیں ہے۔ تربت یونیورسٹی کو درسگاہ سے نکال کر ایک چھاو¿نی میں تبدیل کیا گیا ہے جہاں غیر متعلقہ افراد، خودساختہ این جی اوز، من پسند سیاسی جماعتوں کی شخصیات اور سیکیورٹی سے وابستہ افسروں کی پذیرائی اور آو¿بھگت کی تو روزانہ کی بنیادوں پر کی جاتی ہے لیکن اپنے ہی طالبعلموں کو خوف کے ماحول میں رکھ کر ان سے علم اور تخلیق کے ذرائع چھیننے کی کوششوں میں مصروف عمل ہیں۔ اس کے علاوہ تربت یونیورسٹی انتظامیہ مسلسل طالبعلموں کو مختلف طریقوں سے ہراسمنٹ کا شکار بنا کر انہیں ذہنی کوفتیں دے رہی ہے۔ آج بھی انتظامیہ نے واضح طور پر اپنی مجبوری اور بے بسی کا اظہار کیا، اگر وائس چانسلر، پرو وائس چانسلر اور دیگر کی حیثیت فقط کٹھ پتلی کی ہے، تو اس سے بہتر ہے کہ وہ ایسے عہدے کو قبول نہ کریں۔ بلوچستان کی علمی و ادبی تاریخ میں اس واقعہ کو ہمیشہ برے الفاظوں میں یاد کیا جائے گا۔ آج کا واقعہ سراسر بلوچیت کے خلاف ہے جس کی ہر سطح پر مزمت کی جارہی ہے۔ تربت یونیورسٹی انتظامیہ کے تعصبانہ رویے مسلسل جاری ہیں۔ آج کے واقعہ اور تربت یونیورسٹی انتظامیہ کے آمرانہ اور تعصبانہ رویون اور پالیسیوں کے خلاف بطور طلباءتنظیم بھرپور مزاحمت کے ساتھ آگے آئیں گے۔