سائفر کیس میں کچھ دفعات میں سزائے موت اور عمر قید ہے: جسٹس سردار طارق
اسلام آباد (قدرت روزنامہ)سپریم کورٹ میں چیئرمین پی ٹی آئی کی سائفر کیس میں درخواستِ ضمانت پر سماعت کے دوران جسٹس سردار طارق مسعود نے ریمارکس میں کہا ہے کہ سائفر کیس میں کچھ دفعات میں سزائے موت اور عمر قید ہے۔
سپریم کورٹ میں چیئرمین پی ٹی آئی کی سائفر کیس میں درخواستِ ضمانت پر سماعت جاری ہوئی۔
جسٹس سردار طارق مسعود کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے سماعت کی جس میں جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس عائشہ ملک بھی شامل ہیں۔
چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل سلمان صفدر نے روسٹرم پر آ کر ایف آئی آر پڑھ کر سنائی۔
جسٹس سردار طارق مسعود نے سوال کیا کہ یہ معاملہ کب کا ہے؟
چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل سلمان صفدر نے جواب دیا کہ یہ معاملہ 2022ء کا ہے۔
جسٹس سردار طارق نے کہا کہ سائفر کا مقدمہ درج ہونے میں پورا سال ہی لگا دیا ہے، کچھ دفعات میں سزا 2 سال ہے، کچھ میں سزائے موت اور عمر قید ہے۔
سلمان صفدر نے انکوائری رپورٹ اور مقدمے میں چیئرمین پی ٹی آئی پر لگے الزامات پڑھ کر سنائے۔
انہوں نے کہا کہ الزام لگایا گیا ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی نے اعظم خان کو سائفر کو غلط رنگ دینے کا کہا، الزام لگایا گیا کہ چیئرمین پی ٹی آئی نے بلواسطہ یا بلاواسطہ ریاست کو نقصان پہنچایا۔
جسٹس سردار طارق مسعود نے کہا کہ شریک ملزمان کے کردار کا تعین ہوا؟
وکیلِ صفائی نے کہا کہ اسد عمر کو چھوڑ دیا گیا ہے اور اعظم خان کو ملزم سے استغاثہ کا گواہ بنا دیا گیا ہے۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ پہلے کیس پر کہا گیا کہ اعظم خان ملزم ہیں۔
سپریم کورٹ نے سائفر کیس میں ریاست اور وزارتِ داخلہ کو نوٹس جاری کردیا۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ انکوائری میں کہا گیا تھا کہ شریک ملزمان کا کردار تفتیش میں طے کیا جائے گا، حتمی تفتیشی رپورٹ میں اعظم خان سے متعلق تفتیشی افسر نے کیا کہا؟۔
وکیل صفائی سلمان صفدر نے کہا کہ تفتیشی افسر نے کوئی واضح مؤقف نہیں بتایا، اعظم خان اغوا ہوئے اور ان کے اہلخانہ نے مقدمہ بھی اغوا کا درج کروایا، اغوا کے بعد حیران کُن طور پر اعظم خان کا 164 کا بیان آگیا۔
جسٹس سردار طارق نے کہا کہ دیکھیں ناں، ایسے پھر سچ سامنے آتا ہے۔
وکیل صفائی سلمان صفدر نے کہا کہ آج کل تو سچ ایسے ہی سامنے آتا ہے، چیئرمین پی ٹی آئی کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، ماتحت عدالت کے سامنے کئی گھنٹے دلائل دیے۔
جسٹس سردار طارق نے کہا کہ آپ مقدمات کو سیاسی طور پر چلائیں گے تو یہی ہوگا، ملزم کم عمر نہیں ہے اور کیس مزید انکوائری کا ہے تو اس طرف لائیں۔
عدالت میں جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ آپ کے کیس میں مرکزی گراؤنڈز کیا ہیں۔
وکیل صفائی سلمان صفدر نے کہا کہ ہمارا کیس یہ ہے کہ کیس بنتا ہی نہیں۔
عدالت میں وکیل صفائی نے کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی پر جو دفعات لگائی گئیں وہ جاسوسی اور دشمن ممالک کو فائدہ پہنچانے جیسے جرائم پر لگتی ہیں، تحقیقات میں کہیں نہیں بتایا گیا کہ کہاں جاسوسی ہوئی یا کس دشمن ملک کو فائدہ پہنچا۔
جسٹس سردار طارق مسعود نے کہا کہ وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ آپ نے سائفر کا کوڈ کمپرومائز کردیا، کوڈ اگرچے تبدیل ہوتا رہتا ہے، کئی بار ہفتے بعد بھی تبدیل ہوسکتا ہے۔
وکیل صفائی نے کہا کہ جو الزام ہے اس پر سزا، جرمانہ یا 2 سال قید بنتی ہے، مگر دفعات بڑی لگادی گئیں، سائفر کو ڈی کلاسیفائی قانون کے مطابق کیا گیا اور نیشنل سیکیورٹی کمیٹی میں پیش کیا گیا، قومی سلامتی کمیٹی اجلاس میں سائفر پیش کرنے اور ڈی مارش کا ذکر سپریم کورٹ کے فیصلے میں موجود ہے۔
وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ عدم اعتماد کے معاملے پر سپریم کورٹ کے فیصلے میں اس کا ذکر آیا۔
جسٹس سردار طارق نے کہا کہ ابھی آپ نوٹس ہی جاری کروانا چاہتے ہیں تو اس کی حد تک دلائل دیں۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ سائفر ایک سیکرٹ دستاویز تھا یا نہیں؟
وکیل سلمان صفدر نے جواب دیا کہ سائفر ڈی کلاسیفائی ہونے کے بعد سیکرٹ دستاویز نہیں تھا۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ ڈی کلاسیفائی ہونے سے پہلے کیا ملزم نے سائفر کسی کو دکھایا؟
وکیل سلمان صفدر نے جواب دیا کہ اس دوران سائفر کسی کو نہیں دکھایا گیا۔
جسٹس سردار طارق نے کہا کہ سائفر ہوا میں لہرا کر بتادیا جائے اس میں یہ لکھا ہے تو کیا یہ ابلاغ کے زمرے میں نہیں آتا؟
’الزامات کا ٹرائل نہیں کر رہے، الزامات کیا ہیں صرف یہ دیکھ رہے ہیں‘
جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ ابھی ہم الزامات کا ٹرائل نہیں کر رہے، الزامات کیا ہیں صرف یہ دیکھ رہے ہیں، چیئرمین پی ٹی آئی اس وقت وزیراعظم تھے اور انہوں نے اجلاس میں ساتھیوں سے سائفر شیئر کیا تھا۔
جسٹس یحییٰ نے کہا کہ اگر چیئرمین پی ٹی آئی سائفر پر سازش کر رہے تھے تو اس اجلاس کو کیوں ریکارڈ کیا؟ ہمارے سامنے مسئلہ سائفر کا متن لیک کرنے کا ہے۔
’سائفر آج تک برآمد نہیں ہوا نہ ہی معلوم ہے کہ اس میں کیا درج ہے‘
وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ سائفر آج تک برآمد نہیں ہوا نہ ہی یہ معلوم ہے کہ اصل سائفر میں کیا درج ہے، چیئرمین پی ٹی آئی کو 7 مارچ 2022ء کو سائفر موصول ہوا۔
وکیل سلمان صفدر نے عدالت میں بتایا کہ چیئرمین پی ٹی آئی نے 33 دن تک سائفر اپنے پاس رکھا لیکن اگلی حکومت نے 5 ماہ بعد کہا کہ سائفر گم ہوگیا ہے، پی ڈی ایم حکومت نے 169 دنوں بعد کابینہ اجلاس کے بعد کہا کہ سائفر گم ہوچکا۔
’سائفر کیس کا ٹرائل کالعدم ہونے پر آپ کا نقصان ہوا ہے‘
جسٹس سردار طارق نے کہا کہ سائفر کیس کا ٹرائل کالعدم ہونے پر تو اب آپ کا نقصان ہی ہوا ہے، سائفر کیس کے ٹرائل میں اگر کوئی کمی بیشی تھی تو اس کو دفاع کے لیے آپ بعد میں استعمال کرسکتے تھے، سائفر ٹرائل کالعدم ہونے کے بعد استغاثہ تمام غلطیاں دور کر کے ٹرائل کرے گا۔
جسٹس سردار طارق مسعود نے کہا کہ ہمارے سامنے ضمانت کا کیس تھا جس پر نوٹسز کردیے، صحافی بعد میں کہیں گے جج صاحب کا موڈ ٹھیک نہیں تھا تو ضمانت نہیں دی جبکہ آج نوٹس ہی ہوسکتے تھے۔
بعدازاں سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کردی۔