” اینیمل” پوری درندگی، کیا مولا جٹ کی کاپی؟


اسلام آباد (قدرت روزنامہ)کیا اینیمل پاکستانی فلم مولا جٹ کی کاپی ہے؟ کیا اینیمل میں رنبیر کپور نے اب تک کا یادگار ترین کردار ادا کیا ہے؟ کیا رنبیر کپور کی جگہ یہ کردار کوئی اور ادا کرسکتا تھا؟ کیا بوبی دیول نے اس فلم سے کامیاب کم بیک کیا ہے؟ کیا یہ فلم جوان اور پٹھان سے زیادہ کامیاب ہوگی؟اینیمل میں کس پاکستانی اداکار نے کردار ادا کیا ہے؟
کیا نوجوان اینیمل کے کردار سے متاثر تو نہیں ہونگے؟؟ آئیے ہم ان سب سوالوں کے جواب اور متنازعہ فلم اینیمل کا ریویو جانتے ہیں اس تحریر میں۔۔
اینیمل یعنی جانور نہیں یعنی حیوان بھی نہیں بلکہ درندہ ۔۔۔جی ہاں ایینمل میں حیوانیت نہیں پوری درندگی ہے۔ یہ اس انسان کی کہانی ہے جو جب جانور بنتا ہے تو سب کچھ بھول جاتا ہے۔ اینیمل کا حیوان ٹائیگر،پٹھان اور جوان سب پر بھاری پڑے گا یہ ایسی فلم ہے جو برسوں بحث میں رہے گی ۔اس فلم پر کاپی تو نہیں کئی فلموں سے متاثر ہونے کا بھی الزام لگے گا لیکن فلم سب سے الگ سب سے جدا ہے۔
اس سے پہلے بالی وڈ میں بازیگر، ڈر، انجام، کھل نائیک، واستو، ستیہ، کمپنی اور رام جانے جیسی فلموں پر الزام لگا کہ انھوں نے تشدد کو خوبصورتی دی،فروغ دیا۔ اسی طرح ہالی وڈ میں آج تک ”گاڈ فادر“کی گردن بھی پکڑی جاتی ہے۔یہ بھی معلوم نہیں رنبیر کپور کو ”ہیرو“ بولنا تکنیکی طور پر کتنا صحیح ہوگا لیکن یہاں ان کو ہیرو لکھنا صرف ”رول“ کی وجہ سے ہوگا کردار کی وجہ سے نہیں۔
اس فلم سے پہلی بار یہ بھی بحث شروع ہوسکتی ہے کہ اس فلم کو دیکھنے کیلئے صرف 18برس کا ہونا کافی نہیں بلکہ عمر کے علاوہ اور تقاضے ہونے چاہیے مگران کیلئے پیمانے کیا ہونگے اور کیا وہ بھی اس فلم سے منفی اثر نہ لینے کیلئے کافی ہونگے؟؟
اب جس طرح میڈیا،عمرانیات اور نفسیات میں اس کے بارے میں مثبت اور منفی دونوں دلائل اور نظریات مل جائیں گے اسی طرح ہر حلقے میں اس فلم کے بارے میں لوگ وکیل اور جج بن چکے ہیں اور اپنے دلائل یا فیصلے سنارہے ہیں۔ کچھ تو کبھی الوداع نہ کہنا پر بھی کہتے ہیں کہ اس فلم کے بعد بھارت میں طلاق لینے یا دینے کی شرح میں اضافہ ہوا۔
خیرجس طرح یہ فلم جس نے چاہی اس طرح بنائی اس تحریر میں بھی فلم دیکھ کر جو محسوس کیااسے کھل کر لکھنے کی کوشش ہوگی اس سے کسی کا مکمل طورپر متفق ہونا ضروری بھی نہیں۔
اینیمل فلم ہے سندیپ وانگا کی جنھوں نے کبیر سنگھ اور اس سے پہلے ارجن ریڈی بنائی، اب سندیپ وانگا اگر فلم بنائیں گے تو ان سے راجو کمار ہیرانی والی فلمیں تو بنیں گی نہیں، نہ ہی انھیں بنانی چاہیے۔
جو فلم غور سے دیکھتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ ہر ہدایتکار کی ایک مہر ہوتی ہے جس سے وہ ہر فلم پر اپنی ”اسٹیمپ“ لگاتا ہے۔حالیہ ڈائریکٹرز میں راجوکمار ہیرانی،سورج برجاتیہ، راجا مولی، کرن جوہر، ڈیوڈ دھون، سنجے لیلی بھنسالی، روہت شیٹھی اور رام گوپال ورما سمیت سب کا اپنا اپنا انداز،ڈیزائن اور فلسفہ ہے وہ اس پر ہی رہتے ہیں۔
کبیر سنگھ کو کون بھول سکتا ہے،شاہد کپور کا برف کا استعمال کون بھول سکتا ہے اُس فلم پر بھی کئی اعتراضات اٹھے لیکن سندیپ نے ان اعتراضات کو جمع پھر ضرب کر کے اینیمل بنادی، اس بات کا اظہار انھوں نے بوبی دیول اور رنبیر کپور سے بھی کروایا ہے۔
اینیمل میں ویسے تو بہت سارے ٹریک ہیں جو کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی فلم میں ہمیں تھوڑے تھوڑے نظر آئے ہیں جیسے باپ،بیٹے، داماد اور دھوکے کی کہانی امیتابھ، اکشے کمار اور مہینش بہل کی ”ایک رشتہ دی بونڈ آف لو“،، باپ کے مصروف اور اصول پسند ہونے کی وجہ سے بیٹے کا بگڑنا، دلیپ کمار اور امیتابھ بچن کی ”شکتی“، وراثت کی جنگ اور انجام، انیل کپور کی فلم وراثت،خاندان میں بھائیوں کی جنگ ”مہا بھارت“ یا باہو بلی، غصہ، انتقام، جانور،پنجاب اور ہتھیار مولا جٹ، ماں باپ کی وجہ سے نفسیاتی کردار فلم ”ڈر“، باپ کاانتقام فلم”بازیگر“، باپ کا بیٹے کو باہر بھیج دینا فلم ”کبھی خوشی کبھی غم“،چہرے بدلنا فلم ”فیس آف“ یا مشن امپاسیبل وغیرہ وغیرہ۔ لیکن کسی بھی طرح اینیمل کو کسی بھی فلم سے متاثر بھی کہنا اس آرٹ کی توہین ہوگی۔

اینیمل میں لو، سیکس اور دھوکے پر سب سے زیادہ جو چیز بھاری ہے وہ ہے تشدد، فلم میں بے انتہا تشدد، خون، گولیا ں اور قتل ہیں اور وہ سب بھی کسی بھی علامتی طور پر فلمانے کے بجائے بہت بے رحمانہ انداز میں فلمایا گیا ہے۔
کئی سین سے گھن آئے گی لیکن کئی سے نوجوانوں کے متاثر ہونے کا بھی خدشہ ہے ۔ میرے خیال میں اس سے پہلے کسی بھی بالی وڈ فلم میں سب سے زیادہ تشدد رام گوپال ورما کی ”رخت چریتا“ میں ہی دیکھا گیا تھا۔ اس فلم میں خواتین کیخلاف زیادہ اور ان کے حق میں کم سین ہیں لیکن ہیں۔ زبان بھی فلم میں کھل کر استعمال کی گئی ہے۔یہ فلم دیکھنے سے پہلے سب جان لیں کہ یہ اٹھارہ سال سے زیادہ عمر کے لوگوں اور اوپر سے سندیپ وانگا کی فلم ہے۔
مولا جٹ اور اینیمل دو الگ الگ یونیورس اور زمانے کی کہانیاں ہیں، دونوں بالکل الگ فلمیں ہیں لیکن دونوں میں وائلنس بہت ۔۔۔ مگراتنی ہی محنت سے فلمایا گیا ہے، دونوں کو دیکھ کر کئی لوگوں کا ”کھتارسس“ یعنی عام لفظوں میں ایکشن کی بھڑاس بھی نکلی۔
دونوں میں ہیرو کو اصل کہانی یا اپنے دشمن کا بہت دیر سے علم ہوتا ہے، دونوں میں ہیرو اور ولن کا ٹاکرا بہت اینڈ میں ہوتا ہے دونوں میں ولن دشمن کے ہاتھوں سے مرجاتا ہے لیکن اپنے ساتھیوں کو ہیرو کو مارنے کی اجازت نہیں دیتا، دونوں میں ہیرو اکیلا درجنوں یا سیکڑوں پر بھاری ہوتا ہے،دونوں میں ہیرو کے اندر کا جانور یا اینیمل اکثر انسان پر حاوی ہوجاتا ہے۔
رنبیر کپور جیسے زبردست اور بڑے اداکار نے اپنے آپ کو اس فلم میں جھونک دیا،اسی طرح جیسے فواد خان مولا جٹ بننے کیلئے سب کچھ بھول گئے،اگر کوئی ایک اداکار رنبیر کپور سے بہتر یا ان جتنی اداکاری کرسکتا ہے تو وہ صرف فواد خان ہی ہے۔ ویسے فلم میں ایک نہیں کئی پاکستانی کنیکشن ہیں فلم میں بوبی کا نکاح پڑھانے والے قاضی کا کردار محمود سلطان نے ادا کیا ہے جو ایکٹر ان لاٗ میں جج کا کردار بھی ادا کرچکے ہیں۔
فلم کا میوزک بھی سپر ہٹ اور فلم کی کہانی کا”ہم سفر“ ہے۔ رومانٹک گانے اور تشدد پر ترانے کے ساتھ’’ارجن ویلی“ ست رنگا، پاپا میری جان ،سب گانے سب سے بڑھ کر ”ساری دنیا جلادینگے“ سب بہت زبردست اور سچویشنل ہیں اور ان سب کے ساتھ فلم کا ”لاؤڈ“ بیک گراونڈ میوزک لاجواب۔ سندیپ وانگا نے کبیر کی طرح یہاں رنبیر کی بھی ”سگنیچر ٹیون“ رکھی ہے جو فلم دیکھنے والوں کو ”رَٹ“ گئی ہے۔
فلم کی کہانی تو فلم دیکھنے والے ہی جانیں لیکن کچھ پردوں میں آپ کو بتاتے ہیں، یہ داستان بھارت کے سب سے امیر بزنس مین کی ہے، جس کا اپنا ایک ماضی ہے، اس کے پاس سب کچھ ہے لیکن اپنے بیٹے کیلئے وقت نہیں، بیٹی کے پاس سب کچھ ہے، باپ کا اعتماد نہیں،ان سب کے پاس قابل داماد ہے لیکن اس کے پاس وفا نہیں، رشتے دار ہیں لیکن وہ محبت نہیں۔
یہ امیر بیٹا باپ کی محبت نہ پا کر کریمنل بن جاتا ہے اور اپنے رویے کی وجہ سے آخر تک اپنے باپ کیلئے کریمنل ہی رہتا ہے۔ یہ کریمنل کیسے اپنے باپ پر حملے کے بعد ان ”قاتلوں‘‘ کو ڈھونڈ کر ختم کرتا ہے وہ ساری کہانی اینیمل کی ہے۔کہانی یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ دی اینڈ کے بعد جو اینیمل سامنے آتا ہے وہ اس اینیمل سے بھی بڑا اسی درندے کا ایک اور عکس ہوتا ہے۔
اپنے بچوں کو وقت دیں، اپنی مٹی سے محبت کریں، انتقام کی آگ میں اندھا نہ ہوں، اپنی بیٹیوں کو بیٹے جیسا وارث سمجھیں۔
اداکاری کی بات ہو تو سب سے بڑھ کر ظاہر ہے رنبیر کپور جو اپنے راک اسٹار اور سنجو کی کردار نگاری سے بھی آگے نکل گئے۔ اس سال کا بہترین اداکار کا ایوارڈ ان کا پکا ہے۔ انیل کپور کیا خوب جمے، رشمیکا نے خوب اداکاری کی۔۔۔ باقی اس فلم میں اتنے اداکار ہیں کہ ان کے نام لینا بھی مشکل، رنبیر کے سارے کزنز بیک وقت معصوم، وفادار، سادے لیکن جانباز نظر آئے، سریش اوبرائے ایک بار پھر کبیر سنگھ کی طرح کے کردار میں ہی نظر آئے۔پریم چوپڑا نے بھی فلم”بوبی“کا پرانا ”قرض“ چُکایا۔۔شکتی کپور نے انڈیا کی سب سے بڑی کمپنی کے سی او او کا کردار نبھایا اور ساتھ میں جشن میں گن بھی چلائی۔
بوبی دیول نے اس فلم سے کم بیک کیا ہے جو وہ اس سے پہلے ہاوس فل یا ریس تھری سے نہیں کرسکے تھے۔ بوبی نے کچھ نہ بول کر بھی اپنی خونخواری کی دھاک بٹھائی۔رنبیر اور بوبی کی فائنل فائٹ بہت”خوفناک“ ہے۔یہاں اس بات سے بھی خلاصہ کیا جاسکتا ہے کہ سندیپ نے کہیں بھی کسی سین کو سمجھانے کیلئے دو پھولوں کو نہیں ملایا، انھوں نے جیسا اور جتنا دکھانا تھا اس سے بھی آگے جا کر دکھایا۔فلم کی سب سے خوفناک بات یہ ہے کہ اتنی تشدد سے بھرپور فلم کہیں بھی ”ڈارک“ نہیں لگی۔ سب سینما کی اسکرین کیلئے اتنا ”موزوں“ کیلئے فلمایا گیا ہے کہ ڈر لگنے لگا ہے۔
فلم کے مکالمے آسان، زوردار، دھواں دار اور شاندار ہیں۔ کچھ حالات کے حساب سے ایسے ہیں جو یہاں لکھے ہی نہیں جاسکتے۔
فلم تین گھنٹے سے زیادہ طویل ہونے کے باوجود سینما گھروں میں جم گئی ہے، اس کی ریٹنگ بھی صرف بالغان کیلئے، پھر بھی فلم بلاک بسٹر ہے۔ اپنی کیٹگری میں تو یہ فلم سب سے کامیاب ثابت ہوگی ہی لیکن کوئی تعجب نہیں ہوگا اگر یہ فلم پٹھان اور جوان دونوں سے بھی زیادہ بزنس کرے۔
فلم کے دی اینڈ کے بعد کے سین نے لوگوں کو اتنا حیران نہیں کیا ہوگا جتنا ابھی یہ فلم ڈیجیٹل یا او ٹی ٹی پلیٹ فارم پر کرے گی کیونکہ وہاں فلم میں بہت سے ایسے سین ہونگے جو سینما گھروں میں لوگوں نے نہیں دیکھے یعنی اینیمل کی اور درندگی سامنے آنا باقی ہے دوستو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔