العزیزیہ ریفرنس پر نواز شریف کے حق میں نیب درخواست مسترد، ارشد ملک کی ویڈیو چلانے کا بھی عندیہ
اسلام آباد (قدرت روزنامہ)اسلام آباد ہائی کورٹ نے العزیزیہ کیس میں نوازشریف کی اپیل پر میرٹ پر سماعت کا فیصلہ کیا ہے اور احتساب عدالت کو معاملہ واپس بھیجنے کی نیب کی استدعا مسترد کردی ہے، عدالت نے مرحوم جج ارشد ملک کی ویڈیو عدالت میں چلانے کا عندیہ بھی دے دیا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے العزیزیہ کیس میں نوازشریف کی اپیل پر میرٹ پر سماعت کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور احتساب عدالت کو معاملہ واپس بھیجنے کی استدعا مسترد کردی ہے۔ عدالت نے ریمارکس دیئے کہ العزیزیہ ریفرنس میرٹ پر یہی عدالت سنے گی۔
آج کی سماعت کا احوال
اسلام آباد ہائیکورٹ میں العزیزیہ ریفرنس میں قائد ن لیگ نوازشریف کی سزا کیخلاف اپیل پر سماعت ہوئی، چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے سماعت کی۔
سابق وزیر اعظم نواز شریف اپنی لیگل ٹیم کے ہمراہ کمرہ عدالت میں پیش ہوئے، ان کے وکلاء اعظم نذیر تارڑ، امجد پرویز اور نیب کی جانب سے وکلاء کی ٹیم روسٹرم پر آئے، جب کہ ڈپٹی پراسیکوٹر جنرل نیب نعیم طارق سنگھیڑہ بھی روسٹرم پر آگئے۔
نوازشریف کے وکیل امجد پرویز کے دلائل
وکیل امجد پرویز نے مؤقف اختیار کیا کہ 2018 فیصلے کیخلاف یکم جنوری 2019 کو اپیل فائل ہوئی۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے وکیل امجد پرویز سے استفسار کیا کہ کیا یہ بھی پانامہ کیس سے متعلق تھی۔
وکیل امجد پرویز نے کہا کہ تین ریفرنسزتھے جن میں دو میں بریت ہوچکی ہے، اور ایک یہ ہے، فلیگ شپ ریفرنس میں نیب نے اپیل واپس لے لی تھی، نیب نے سپریم کورٹ کے احکامات پرریفرنسز دائر کیے، ریفرنس میں ایک جیسے الزام تھے، فلیگ شپ ریفرنس میں احتساب عدالت نے نوازشریف کو بری کیا، ایک ہی الزام پر الگ الگ ریفرنس دائر کیے گئے۔
عدالت نے استفسار کیا کہ اس میں الزام کیا تھا۔
وکیل امجد پرویز نے بتایا کہ وہ آمدن سے زائد اثاثہ جات کا کیس تھا، اس کیس میں 22 گواہ ہیں 13 وہ ہیں جنہوں نے ریکارڈ پیش کیا، وقوعہ کا کوئی چشم دید گواہ نہیں ہے۔
جسٹس میاں گل حسن نے استفسار کیا کہ نیب کا الزام ہے نوازشریف بے نامی دار ہیں، کچھ ٹرانزیکشنز ہیں، ان سے متعلق عدالت کو بتائیں۔
وکیل امجد پرویز نے کہا کہ العزیزیہ اسٹیل مل 2001 میں سعودی عرب میں بنی، اس وقت نوازشریف پبلک آفس ہولڈر نہیں تھے، العزیزیہ کو بیچ کرہل میٹل 2005/2006 میں بنائی گئی، اس کمپنی سے نواز شریف کے تعلق کا کوئی دستاویزی ثبوت پیش نہیں کیا گیا، نیب کا سارا کیس نواز شریف کی ان کمپنیوں کی ملکیت ثابت کرنے کا تھا، ان کمپنیوں کے شئیر ہولڈرز حسین نواز شریف، عباس شریف اور ایک خاتون تھیں، ایم ایل ایز سعودی عرب کو لکھے گئے لیکن ان کا کوئی جواب نہیں آیا، والد نے العزیزیہ اسٹیل مل بنائی تھی، اس اسٹیل مل کے ساتھ کبھی کوئی تعلق نہیں رہا۔
امجد پرویز نے بتایا کہ العزیزیہ 2001 اور ہل میٹل 2005 میں بنائی گئی، میاں شریف اپنی زندگی میں ہرطرح کے اخراجات خود کرتے تھے، دونوں ملز بنانے کے وقت پبلک آفس ہولڈر نہیں تھے۔
امجد پرویز کے مطابق جے آئی ٹی کے سربراہ نے بھی دستاویزی ثبوت نہ ملنے کو تسلیم کیا ہے، نواز شریف کی فیملی نے 1976 میں دبئی میں گلف اسٹیل ملز لگائی، یہ گلف کی سب سے بڑی اسٹیل ملز تھی جو دبئی میں لگائی گئی، یہ بعد کی بات ہے کہ وہ بعد میں منافع میں رہی یا نہیں۔
وکیل امجد پرویز نے بتایا کہ بیٹے نے باپ کو باہر سے بینکنگ چینل کے ذریعے رقم بھجوائی،
ہل میٹل اسٹیبلشمنٹ بنانے کے چار سال بعد یہ رقم بھجوائی گئی، 2017 میں حسین نوازکے اکاؤنٹ سے جو رقم آئی وہ ٹیکس ریٹرن میں بھی ظاہرکی گئیں۔
عدالت نے نیب پراسیکوٹر کو بولنے سے روک دیا
نیب پراسیکوٹر نے مؤقف اختیار کیا کہ ان کی ایک درخواست جج ویڈیواسیکنڈل سے متعلق زیرالتوا تھی، انہوں نے اضافی شواہد سے متعلق درخواست دی تھی، یہ میرٹ پر دلائل دے رہے ہیں لیکن ان کی وہ درخواست زیرالتوا ہے، وہ جج ویڈیواسیکنڈل کیس تھا جج صاحب نے بھی پریس ریلیز دی تھی۔
عدالت نے نیب پراسیکوٹر کو بولنے سے روک دیا۔ جس کے بعد نوازشریف کے وکیل امجد پرویز نے کہا کہ جج ویڈیواسیکنڈل سےمتعلق اپنی درخواست کی پیروی نہیں کریں گے، جج ارشد ملک فوت ہوچکے ہیں، ہم اس درخواست کی پیروی نہیں کر رہے۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے وکیل سے کہا کہ کیا اس درخواست کی پیروی کریں گے، تو ہم اس کو دیکھیں، ارشد ملک اب نہیں ہیں لیکن باقی لوگ ابھی موجود ہیں، آپ کا فیصلہ کیا ہے درخواست کی پیروی کرنا چاہتے ہیں یا نہیں۔
وکیل امجد پرویز نے کہا کہ مجھے ہدایت دی گئی ہے، درخواست کی پیروی نہیں کرنا چاہتے، میں جج ارشد ملک کے حوالے سے دعا گو ہوں۔
جسٹس گل حسن اورنگزیب نے وکیل سے استفسار کیا کہ کن گراؤنڈز پر جج ارشد ملک کو بر طرف کیا گیا تھا، آپ کا اختیار ہے جج ارشد ملک کا معاملہ اٹھانا چاہتے ہیں کہ نہیں، کیونکہ درخواست تو موجود ہے، ہم یہاں اسکرین لگا دیں گے اوروڈیو چلا دیں گے، یہ بات یادرکھیں کہ یہ دودھاری تلوار بھی ثابت ہوسکتی ہے۔
نوازشریف کے وکیل اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ ہمیں ضرورتکلیف ہوگی دوبارہ جائیں گے اور دوبارہ دلائل دیں گے۔
جسٹس گل حسن اورنگزیب نے پوچھا کیس واپس جانے پر نیب وہی رویہ اختیار کرتا ہے جو یہاں کیا تو پھر؟۔
چیف جسٹس عامرفاروق نے استفسار کیا کہ اب ہمارے پاس دوآپشن ہیں یا خود سنیں یا ریمانڈ کردیں، صاف بتائیں ؟ کون سا آپشن لیں گے۔
وکیل اعظم نذیر نے کہا کہ بہت سی باتیں عدالت کے سامنے نہیں کرنا چاہتا۔
نوازشریف جاتی امر سے کب روانہ ہوئے
واضح رہے کہ ن لیگ کے قائد اور سابق وزیراعظم نواز شریف صبح 9 بجکر 30 منٹ پر جاتی امرا سے اسلام آباد ہائیکورٹ میں پیشی کے لئے روانہ ہوئے تو مریم اورنگزیب، بلال کیانی اور دیگراسٹاف بھی ان کے ہمراہ تھے۔
نوازشریف کا قافلہ ایئرپورٹ سے منسٹر انکلیو پہنچا، جہاں لیگی رہنماؤں کی آمد کا سلسلہ رہا۔
واضح رہے کہ 24 دسمبر 2018 کو اسلام آباد کی احتساب عدالت نے سابق وزیراعظم نواز شریف کو العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس میں7 سال قید اور جرمانے کی سزا سنائی تھی۔
نواز شریف نے احتساب عدالت سے سزا کیخلاف اپیل دائر کررکھی ہے، جب کہ نیب نے العزیزیہ ریفرنس میں نواز شریف کی سزا بڑھانے کی اپیل دائر کر رکھی ہے۔
العزیزیہ ریفرنس میں نواز شریف کی سزا معطل
سابق وزیراعظم نے پنجاب حکومت کو سزامعطل کرنے کی درخواست کی تھی، جس پر 24 اکتوبر 2023 کو نگراں پنجاب کابینہ نے نوازشریف کی العزیزیہ ریفرنس میں سزا معطلی کی منظوری دے دی تھی۔
سزا معطلی کے حوالے سے تفصیلات
محکمہ داخلہ پنجاب نے العزیزیہ ریفرنس میں نواز شریف کی سزا معطل کرنے کا نوٹیفکیشن 25 اکتوبر کو جاری کیا۔ جس میں بتایا گیا کہ نواز شریف کی درخواست پر فیصلے کے لیے نگران کابینہ نے وزراء پر مشتمل کمیٹی تشکیل دی تھی، اس کمیٹی نے نواز شریف کے وکلاء امجد پرویز، عطاء تارڑ اور ڈاکٹر عدنان کو شنوائی کا موقع دیا۔
نوازشریف کی جانب سے سزا معطلی کی درخواست میں کہا گیا تھا کہ نواز شریف کی طبعیت مکمل ٹھیک نہیں ہے اور وہ جیل نہیں کاٹ سکتے۔
صوبائی وزراء، بیوروکریٹس، ایڈووکیٹ جنرل پنجاب اور دیگر پر مشتمل کمیٹی نے اجلاس کے بعد سفارشات تیار کیں۔
ذرائع کے مطابق کمیٹی نے ماضی کی بعض مثالوں اور اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلوں کی روشنی میں سزا معطل کرنے کی سفارش کی، جس کی نگراں وزیراعلیٰ اور کابینہ نے منظوری دے دی۔
وزیراعلیٰ پنجاب اور کابینہ کی منظوری کے بعد ایڈیشنل سیکرٹری داخلہ کی ہدایت پر نوازشریف کی سزا معطلی کا نوٹیفکیشن جاری کیا گیا۔