حکومت نے بینکوں کی پی آئی اے کو قرض کیلیے کڑی شرائط مسترد کردی


اسلام آباد(قدرت روزنامہ)وفاقی حکومت نے تجارتی بینکوں کی جانب سے پی آئی اے کو 15ارب روپے کے نئے قرض جاری کرنے کے لیے عائد کڑی شرائط کو قبول کرنے سے انکار کردیا ہے۔حکومتی ذرائع کے مطابق 6بینکوں کے اشتراک نے پی آئی اے کو 15ارب روپے قرض جاری کرنے کی پیشکش کی تھی اور اس کے بدلے بین الاقوامی ضمانتیں، معاہدوں کی پاسداری کی یقین دہانی (لیٹر آف کمفرٹ)، پی آئی اے 2طیارے بطور ضانت کے ساتھ ساتھ اسٹیٹ بینک سے بھی مراعات کے حصول کی شرائط رکھی تھیں۔
ذرائع کا مزید کہنا تھا کہ بینکوں نے جو شرائط رکھی ہیں ان میں سے ایک یہ بھی تھی کہ نئے قرض کو پرانے معاہدے کے ساتھ منسلک کیا جائے جس کے تحت 263 ارب روپے کے قرضہ جات کی ادائیگی کا منصوبہ بنایا گیا تھا، وزارت نج کاری نے یہ تمام تجاویز جب وزارت خزانہ کے روبرو پیش کیں تو انھوں نے اسے قبول کرنے سے انکار کردیا اور کہا ہے کہ یہ شرائط بینکوں کے مفادات کا تحفظ کرتی ہیں اور بین الاقوامی ضمانتوں کی موجودگی میں یہ شرائط کچھ زیادہ ہیں۔
وزارت خزانہ کے ترجمان قمر عباسی وزارت کی جانب سے ان شرائط کو رد کرنے کے سوال پر کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ حبیب بینک لمیٹڈ، نیشنل بینک آف پاکستان اور میزان بینک نے پی آئی اے کو انفرادی طور پر تین، تین ارب روپے کی پیشکش کی تھی یعنی مجموعی طور پر 9 ارب روپے کے قرض فراہم کرنے کی پیش کی گئی تھی جبکہ فیصل بینک، بینک آف پنجاب اور عسکری بینک کی جانب سے دو، دو ارب یا مجموعی طور پر چھ ارب روپے قرض کی پیش کش تھی۔
قرض کی پیشکش دو سال کے لیے تھی، پی آئی اے کی جانب سے یہ قرض دو طیاروں کو واپس لینے اور دیگر مالی ضرویات پورا کرنے کے لیے لیا جانا تھا۔ وفاقی وزیر برائے نج کاری فواد حسن فواد کی کوشش ہے کہ پی آئی اے کی نج کاری کردی جائے۔بینکوں کی تجویز ہے کہ پندرہ ارب روپے کے قرض میں سے نصف یعنی ساڑھے سات ارب روپے بین الاقوامی ضمانتوں کے تحت جو کہ وزارت خزانہ کو قابل قبول ہوں جاری کیا جائے گا جبکہ دیگر نصف یعنی ساڑھے سات ارب روپے کے لیے بینکوں نے وزارت خزانہ سے دیگرمعاہدوں کی پاسداری کی یقین دہانی (لیٹر آف کمفرٹ) اور دو طیاروں کو بطور رہن (ضمانت) دینے کی شرط رکھی ہے۔
بینکوں کی جانب سے یہ پندرہ ارب روپے کا یہ قرض (کائیبور) 1.5فیصد پر دیا جارہا ہے یعنی اصل شرح سود 24 فیصد ہوگا جس پر وزارت خزانہ نے وزارت نج کاری سے کہا ہے کہ قرض کے لیے یہ شرح سود بہت زیادہ ہے۔ ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ بینکوں نے وزارت خزانہ سے کہا ہے کہ وہ اسٹیٹ بینک سے یہ یقین دہانی بھی دلائیں کہ پندرہ ارب روپے کے اس قرض کے ڈیفالٹ ہونے کی صورت میں کوئی دیگر شرط قابل قبول نہیں ہوگی تاہم وزارت خزانہ نے نجی بینکوں اور اسٹیٹ بینک کے درمیان اس معاملے پر ثالثی سے انکار کردیا ہے۔
بینکوں نے حکومت سے یہ کہا ہے کہ متحدہ ارب امارت روٹس پر چلنے والی پی آئی اے کے پروازوں سے حاصل ہونے والی آمدنی انہیں وصول کرنے دی جائے اور اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ امارات کے روٹس پر پی آئی اے کے پروازیں بلاتعطل آپریشن جاری رکھ سکیں اور ان روٹس کے لیے طیاروں کو تیل اور ایندھن کی فراہمی میں بھی کوئی رکاوٹ نہ پیش آئے۔
اس کے علاوہ بینکوں نے یہ بھی کہا ہے کہ پندرہ ارب روپے کے قرض کو آئندہ ری شیڈول نہیں کیا جاسکے گا اور اس قرض کو وقت پر ہی ادا کرنا ہوگا۔ علاوہ ازیں حکومت اور بینکوں کے نمائندوں پر مشتمل مشترکہ کمیٹی پی آئی اے کے لیے قابل عمل حل تلاش کرنے میں ناکام رہی حالانکہ اس کمیٹی کی مدت کار میں تین بار اضافہ کیا گیا تھا جو کہ گزشتہ ہفتے ختم ہوگیا۔