تین وفاقی وزرا اور آئی جی نے جھوٹ بولا، کوئی خاتون رہا نہیں ہوئی، حامد میر کا اسلام آباد ہائیکورٹ میں بیان


اسلام آباد(قدرت روزنامہ)اسلام آباد ہائی کورٹ نے وفاقی پولیس کو حراست میں لی گئیں تمام بلوچ خواتین اور بچوں کو فوری رہا کرنے کا حکم دے دیا ہے۔بلوچ مظاہرین کی گرفتاری کے خلاف جمعے کو درخواست کی سماعت کے دوران اسلام آباد ہائی کورٹ نے انسپکٹر جنرل پولیس (آئی جی) کو گرفتار افراد سے متعلق تحریری طور پر آگاہ کرنے کی بھی ہدایت کی اور کہا کہ مظاہرین اسلام آباد میں جہاں پر امن احتجاج کرنا چاہتے ہیں انہیں اس کا حق حاصل ہے۔چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس عامر فاروق نے جمعے کو بلوچ مظاہرین کی گرفتاریوں اور احتجاج کا حق دینے سے روکنے کے خلاف درخواست پر سماعت کی۔عدالت کی طلبی پر آئی جی اسلام آباد اکبر ناصر خان عدالت میں پیش ہوئے اور انہوں نے جمعرات کی شب پیش آنے والے واقعات پر عدالت میں بیان دیا۔جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ صبح بتایا گیا کچھ خواتین کو زبردستی واپس بلوچستان بھیجا جا رہا ہے
جس پر آئی جی اسلام آباد نے کہا کہ جو واپس جانا چاہتے تھے ان کے لیے بس کا انتظام کیا گیا تھا۔آئی جی کے مطابق خواتین آئی ٹین میں موجود ہیں جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آئی ٹین میں کیوں ہیں؟ وہ جہاں جانا چاہیں تو جا سکتے ہیں اور پرامن احتجاج کرنا ان کا حق ہے۔واضح رہے کہ بلوچ یکجہتی مارچ میں شریک افراد گزشتہ دو روز سے اسلام آباد میں ہیں اور گزشتہ روز اسلام آباد پولیس نے خواتین اور بچوں سمیت متعدد مظاہرین کو حراست میں لے لیا تھا۔پولیس نے کئی خواتین کو زبردستی بس میں بٹھا کر واپس بلوچستان کے لیے روانہ کرنے کی بھی کوشش کی۔سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیوز میں کئی خواتین کو ویمن پولیس تھانے میں بھی دیکھا گیا ہے اور یہ معاملہ بھی جمعے کو سماعت کے دوران زیرِ بحث آیا۔
سماعت کے دوران کمرۂ عدالت میں موجود صحافی حامد میر نے عدالت کو بتایا کہ گزشتہ شب خواتین کو زبردستی گاڑیوں میں ڈالا گیا اور آئی جی کہہ رہے ہیں کہ انہیں مرضی سے جانے کی اجازت تھی۔آئی جی اسلام آباد نے عدالت کو بتایا کہ گزشتہ شام 52 افراد کو گرفتار کیا جب کہ مجموعی طور پر 216 افراد حراست میں ہیں۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ تحریری طور پر بتائیں کہ کن خواتین کو گرفتار کیا، ویمن پولیس اسٹیشن میں کتنی خواتین تھیں اور حراست میں لیے جانے والوں میں سے کتنوں کو رہا کیا ہے۔صحافی حامد میرنے کہا کہ کل عدالت کو بتایا گیا کہ تمام خواتین کو رہا کر دیا جب کہ تین وفاقی وزرا اور آئی جی نے پریس کانفرنس کے دوران بھی یہی کہا کہ تمام خواتین کو رہا کر دیا لیکن مجھے معلوم ہوا کہ کوئی خاتون رہا نہیں ہوئی۔ جب میں ویمن اسٹیشن گیا تو وہاں بچیوں کو گھسیٹ کر لایا جا رہا تھا۔ہیومن رائٹس کمیشن کے عہدیدار احمد بٹ نے سماعت کے دوران کہا کہ ہماری بچیوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح بسوں میں ڈالا گیا، جو رویہ گزشتہ دو راتوں میں ہمارے بچوں بچیوں کے ساتھ کیا گیا، شاید ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا۔چیف جسٹس نے کہا کہ ایک عام آدمی اگر زیادتی بھی کر لے تو پبلک آفس ہولڈر کو تدبر کے ساتھ کام کرنا ہوتا ہے لیکن وہ نہیں کر پا رہے۔عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد کیس کی مزید سماعت آئندہ ہفتے تک کے لیے ملتوی کر دی۔