معاشی حالات سے تنگ شخص نے موٹرسائیکل کو سائیکل بنا دیا


کراچی(قدرت روزنامہ) حالات کی ستم ظریفی کے شکار کراچی کے ایک ہنرمند نے زندگی کی دشواریاں اپنے فن سے آسان بنا لیں، موٹرسائیکل کا انجن اور پرزے چوری ہوئے تو اس میں سائیکل جوڑ کر انوکھی اور منفرد سواری تیار کر ڈالی۔دیکھنے میں موٹر سائیکل لگنے والی سواری پیڈل سے چلتی ہے، جہاں سے گزرتی ہے شہری فن کی داد دینے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ دانش ایاز اپنی بنائی گئی اس منفرد سواری پر ہی کراچی کی سڑکوں پر روزگار تلاش کرتے ہیں اور سڑکوں پر دوران سفر خراب ہوجانے والی گاڑیوں کی مرمت کرکے روزی کماتے ہیں۔
دانش موٹر سائیکل اور کاروں کے مکینک ہیں ساتھ ہی پنکچر بھی لگانا جانتے ہیں، پلمبنگ اور الیکٹریشن کا کام ان کی اضافی مہارت ہے۔ محنت مزدوری کرکے اپنے بچوں کی کفالت کرنے والے دانش ایاز کی زندگی ہر موڑ پر نیا امتحان لے رہی ہے اور ان ہی آزمائشوں نے انہیں حالات سے لڑنے کی ہمت دی ہے۔
گلشن اقبال کے بلاک 14 کے رہائشی دانش ایاز ہرفن مولا انسان ہیں جو زندگی کی مشکلات سے پریشان ہونے کے بجائے اپنی صلاحیت سے ان کا حل نکالتے ہیں لیکن مشکلیں ہیں کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہیں۔ منفرد قسم کی سواری بھی ان کی زندگی کی ایک مشکل کا نتیجہ ہے، والد کے انتقال کے بعد ان کی ورکشاپ میں چوری کی گئی جہاں چور موٹرسائیکل کا انجن اور پچھلا پہیہ سمیت اہم پرزہ جات چور ی کرکے لے گئے۔
دانش نے موٹرسائیکل کے باقی ماندہ پرزوں کو کام میں لانے کا سوچا اور ایک مضبوط سائیکل کے فریم میں موٹرسائیکل کے پارٹس جوڑ کر ایک سواری تیار کرلی جو سائیکل کی طرح چلتی لیکن دیکھنے میں موٹرسائیکل سے مشابہت رکھتی ہے۔ دیکھنے والے دانش کے فن کی داد دیتے ہیں لیکن دانش کی اس کاریگری کے پیچھے ان کی زندگی کے سخت حالات کا بڑا دخل ہے۔ دانش کی چوری شدہ موٹرسائیکل کا انجن پولیس نے بازیاب کرا لیا اور دانش کے بقول اب وہ انجن ریٹرن فائل کے ساتھ بنوری ٹاؤن تھانے میں موجود ہے لیکن پولیس کے پیچیدہ ضابطوں کے خوف سے وہ انجن وصول نہ کر پائے اور اپنی تیار کردہ سواری پر ہی سفر کر رہے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ اکثر شوقین افراد ان کی تیار کردہ سواری خریدنے کی پیش کش کرتے ہیں اور لاگت سے دو، تین گنی قیمت ادا کرنے کو تیار ہوتے ہیں لیکن وہ اس سواری کو فروخت کرنا نہیں چاہتے تاہم اگر کوئی اس طرز کی سواری بنوانا چاہتا ہے تو اسے اپنی خدمات پیش کرنے کے لیے تیار ہیں۔ دانش ایاز مہنگائی اور روزگار کی کمی سے پریشان ہیں وہ یومیہ اجرت کماکر اپنے دو بچوں پر مشتمل کنبے کی کفالت کرتے ہیں کسی روز آمدن ہوتی ہے کسی روز نہیں حالات کی سختیوں کی وجہ سے وہ تین میں سے ایک اولاد کو کھو بھی چکے ہیں۔
دانش ایاز خان کی ورکشاپ پر قبضہ کرکے اسے فروخت کیا گیا اور کئی ماہ کی قانونی جدوجہد کے بعد انہیں اپنی ورکشاپ کا قبضہ ملا۔ اسی دوران، ان کے آبائی گھر کے ایک حصے پر بھی قبضہ کرلیا گیا جس کی عدالتی چارہ جوئی جاری ہے لیکن وکیلوں کے اخراجات ادا کرنے ان کے بس سے باہر ہے۔ دانش ایاز مستقل ملازمت کی تلاش میں ہیں تاکہ لگی بندھی آمدن کے ساتھ اپنے گھر کی کفالت کر سکیں، انہیں انجن کی بازیابی کے لیے بھی معاونت کی ضرورت ہے۔