کیا پی ٹی آئی چاہتی ہے 100فیصد امیدواروں کے کاغذات نامزدگی منظور کریں؟ چیف جسٹس


اسلام آباد(قدرت روزنامہ) لیول پلیئنگ فیلڈ کیس میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ کیا آپ چاہتے ہیں ہم یہ کہہ دیں تحریک انصاف کے امیدواروں کے 100 فیصد کاغذات نامزدگی منظور کریں۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے تحریک انصاف کی لیول پلیئنگ فیلڈ کیس پر سماعت کی۔
عدالت نے الیکشن کمیشن اور چیف سیکریٹری پنجاب کی رپورٹس پر پی ٹی آئی سے تحریری جواب طلب کرتے ہوئے سماعت آئندہ پیر تک ملتوی کر دی۔ عدالت نے ہدایت دی کہ الیکشن کمیشن اور چیف سیکریٹری پنجاب چاہیں تو جواب جمع کرا سکتے ہیں۔
دوران سماعت، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہمیں بتائیں رپورٹ میں غلط ہے؟ چیف سیکریٹری پنجاب کے تحریری جوابات میں اگر کوئی غلط بیانی کی گئی ہے تو ہمیں تحریری طور پر بتائیں، زبانی بات نہ کریں۔ جملے بازی نہ کریں، بتائیں آپ کے لیے کیا آرڈر جاری کریں، اگر ملک کے کسی ادارے پر اعتماد نہیں ہے تو بتائیں ہم حکم دے دیتے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں اپنے دکھڑے نہ سنائیں، جس پر وکیل پی ٹی آئی لطیف کھوسہ نے کہا کہ ساری دنیا کو علم ہے ہمارے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔ چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ہم عدالتی کارروائی کو لائیو دکھا کر دنیا کو خود دکھا رہے ہیں۔ وکیہل پی ٹی آئی نے کہا کہ ہمیں لیول پلیئنگ فیلڈ چاہیے لیکن دفعہ 144نافذ کی گئی ہے جبکہ ان کے امیدواروں کے لیے ایسا نہیں ہے۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ ان کے امیدواروں سے آپ کی کیا مراد ہے، دفعہ 144صرف ایک جماعت کے لیے نہیں ہے بلکہ تمام سیاسی جماعتوں کے لیے ہے۔ کیا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں ن لیگ، پیپلز پارٹی اور جے یو آئی ف کے خلاف سازش کر رہی ہیں۔
وکیل پی ٹی آئی حامد خان نے کہا کہ انتخابی نشان کیس پرسوں سماعت کے لیے مقرر کریں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ٹھیک ہے ہم پرسوں سماعت کے لیے مقرر کر رہے ہیں، سب سے زیادہ درخواستیں پی ٹی آئی کی آ رہی ہیں اور سنی بھی جا رہی ہیں، کیس بھی لگوانا ہے اور اٹھ کر عدالت بھی نہیں آنا۔
چیف جسٹس نے واضح کیا کہ انتخابات کروانا الیکشن کمیشن کا کام ہے ہمارا نہیں، کسی سے کاغذات چھینے جا رہے یا جو بھی ہو رہا وہ الیکشن کمیشن نے دیکھنا ہے، ہم نے واضح کیا تھا کہ انتخابات کی تاریخ صدر اور الیکشن کمیشن کا کام ہے، الیکشن کمیشن کے دائرہ اختیار سے متعلق معاملات عدالت کیوں سنے، ہمارے سامنے کچھ دائر ہوگا تو ہم اسے دیکھیں گے، کوئی درخواست آئے گی یا شکایت آئے گی تو ہم سنیں گے۔