ریاستی ادارے عدالتوں پر یقین نہیں کرتے اسی لیے لوگوں کو اٹھایا جارہا ہے، اسلام آباد ہائیکورٹ


اسلام آباد (قدرت روزنامہ)اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا ہے کہ ریاستی ادارے عدالتوں پریقین نہیں کرتے اس لیے لوگوں کو اٹھایا جا رہا ہے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ میں ایمان مزاری کی بلوچ طلبا کی بازیابی سے متعلق درخواست کی سماعت ہوئی۔ جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دئیے کہ ریاستی اداروں کو قانون کی بالا دستی پر یقین ہونا چاہیے۔ ریاستی ادارے عدالتوں پر یقین نہیں رکھتے اس لیے لوگوں کو اٹھایا جا رہا ہے۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ جس دن یہ سائیکل الٹا چلا اس دن جبری گمشدگی نہیں ہوگی۔ ریاست کو کسی سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ریاست کو تو سب کو ڈیل کرنا ہوتا ہے۔ مسنگ پرسنز کا تصور صرف ہمارے ملک میں ہوتا ہے دیگر ملکوں میں ایسا نہیں ہے۔ جسٹس محسن اخترن نے ریمارکس میں کہا کہ ایجنسیوں کے لوگوں کو پراسیکیوٹ کرنا ہوگا۔ ٹرائل تین تین سال چلتا ہے۔ ریاست اداروں کوتحفظ فراہم کرتی ہے۔ ریاست سب کچھ کر سکتی یے۔
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے عدالت کو بتایا کہ درخواست گزار ایمان مزاری نے لاپتہ بلوچ طلبہ کی فہرست فراہم کی۔ لاپتہ طلبا میں سے 9 کو بازیاب کروا لیا گیا ہے جبکہ 15 کو بازیاب کروانے کی کوششیں جاری ہیں۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے اٹارنی جنرل سے مکالمے میں کہا کہ آپ کے مطابق 15 بلوچ طلبا لاپتہ ہیں۔ اعلیٰ ترین دفتر کو بیان حلفی دینا ہوگا کہ آئندہ کوئی جبری گمشدگی نہیں ہوگی جس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ میں بیان دیا ہے کہ اب کوئی جبری گمشدگی نہیں ہوگی۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے استفسار کیا کہ وفاقی حکومت نے یہ بیان حلفی دیا تو کیا وفاقی حکومت جبری گمشدگیوں میں ملوث تھی؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ وفاقی حکومت نے اب اور مستقبل کے لیے بیان حلفی دیا ہے۔حکومت کا جوڈیشل سسٹم پر اعتماد ہونا چاہیے۔ خود کو قانون سے بالاتر ہونے کا تصور ختم ہونا چاہیے۔ آج آپ کچھ نہ کریں مگر وقت آئے گا کہ ریاستی اداروں کے خلاف کاروائی ہوگی۔