ریاست کو میری ماں کی زندگی کے 15 برسوں کا حساب دینا ہوگا، سمی دین بلوچ


اسلام آباد (قدرت روزنامہ) ڈاکٹر سمی دین بلوچ نے اپنے سوشل میڈیا اکاﺅنٹس پر پوسٹ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ میری والدہ گھریلو خاتون تھیں، گھر کی چار دیواری کے باہر کیا ہورہا ہے اس بات سے بے خبر اپنی چھوٹی سی دنیا میں اپنے شریک حیات اور ہم بچوں کے ساتھ بہت خوش تھیں۔ ایک دن مسلح نقاب پوش گن پوائنٹ پر اماں کے وجود کا آدھا حصہ (ڈاکٹر دین محمد بلوچ ) کو اپنے ساتھ لے گئے۔ پندرہ سال گزر گئے والدہ کی آنکھوں کے آنسو سوکھ گئے، چہرے پر ماتمی لکیروں نے جگہ بنائی، بالوں میں چاندی سی چھا گئی،
مگر امید کا دامن پھر بھی ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔ بابا کے بارے میں قصے والدہ سے سنتے ہیں اور وہ ایسے narration دیتی ہے جیسے ہمارے بابا کسی ناول کا کردار ہوں۔ ہم سے پہلے اس ریاست کو میری اماں کے ساتھ پندرہ برسوں کی ان کی زندگی کے ان خوبصورت ایام کا حساب دینا ہوں گے جو بابا کے بغیر بلیک اینڈ وائٹ نظر آتے ہیں۔ میری اماں کسی ناول کا کردار نہیں ہے نہ میرے بابا وہ جیتے جاگتے زندہ دلی سے زندگی کررہے تھے، انہیں کہانی اور قصہ بنانے والوں سے حساب ضرور مانگیں گے۔