سویلین کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کیس کا تحریری فیصلہ جاری، جسٹس یحییٰ کا اختلافی نوٹ


اسلام آباد(قدرت روزنامہ) سپریم کورٹ نے سویلین کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کیس کا تحریری فیصلہ جاری کردیا جس میں جسٹس یحییٰ آفریدی نے اختلافی نوٹ میں کہا ہے کہ بڑے بینچ کا فیصلہ چھوٹے بینچز تبدیل نہیں کرسکتے، اس کیس کو نو رکنی لارجر بینچ کو سننا چاہیے تھا۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کو کالعدم قرار دینے کے معاملے میں سپریم کورٹ نے تفصیلی فیصلہ جاری کردیا جو 125 صفحات پر مشتمل ہے اور اسے جسٹس منیب اختر نے تحریر کیا ہے۔ جسٹس عائشہ ملک کا اضافی نوٹ بھی فیصلے کا حصہ ہے۔
جسٹس منیب اختر نے فیصلے کی ابتدا لارڈ ایٹکن کے 1941ء کے ایک جملے سے کی ہے اور کہا ہے کہ لارڈ ایٹکن نے اپنی مشہور زمانہ تقریر میں کہا تھا کہ برطانیہ میں بدترین جنگ میں بھی قوانین خاموش نہیں تھے، برطانیہ میں بدترین جنگ میں بھی قوانین وہی تھے جو حالت امن میں تھے۔
فیصلے میں جسٹس یحییٰ آفریدی کا 20 صفحات پر مشتمل اختلافی نوٹ بھی جاری کردیا گیا جس میں جسٹس یحییٰ نے کہا ہے کہ فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کے خلاف کیس کو 9 رکنی بنچ کو سننا چاہیے تھا، تقریباً 50 برس قبل بریگیڈئیر ایف بی علی کیس کا فیصلہ سپریم کورٹ کے 5 ججز نے دیا، یہ عدالت اصول طے کر چکی ہے کہ ایک بڑے بینچ کا فیصلہ چھوٹے عدالتی بینچز تبدیل نہیں کرسکتے۔
جسٹس یحییٰ نے کہا ہے کہ 5 ججوں کا عدالتی فیصلہ 5 جج ختم نہیں کرسکتے، میری دانست میں 21ویں آئینی ترمیم کیس کے فیصلے کے بعد اس کیس کو 9 رکنی بینچ سنتا تو مناسب ہوتا، سپریم کورٹ کے اس پانچ رکنی بینچ پر ایف بی علی کیس کا اطلاق ہوتا ہے۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے اختلافی نوٹ میں آرمی ایکٹ کے سیکشن 2(1) ڈی ٹو کا حوالہ دیا اور کہا ہے کہ 9 اور 10 مئی کے واقعات کی روشنی میں 2892 مرد و خواتین گرفتار ہوئے، 103 مرد ملزمان کے بارے میں فیصلہ کیا گیا کہ فوجی عدالتوں میں ٹرائل چلایا جائے گا، اس کیس کو سپریم کورٹ کے 9 رکنی بینچ کو سننا چاہیے تھا۔