’’عمران خان عدالت میں رو نہیں رہے تھے‘‘ علیمہ خان نے تردید کردی


اسلام آباد(قدرت روزنامہ) بانی چیئرمین پی ٹی آئی کی بہن علیمہ خان نے صحافی کے دعوے کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ عمران خان عدالت میں رو نہیں رہے تھے۔ہائی کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے علیمہ خان نے کہا کہ عمران خان بالکل نہیں رو رہے تھے، وہ صرف اس بات پر نالاں تھے کہ گزشتہ 5 ماہ کے دوران ان کی صرف ایک بار بیٹوں سے بات کروائی گئی۔
علیمہ خان نے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ آرڈر کرتی ہے لیکن خصوصی عدالت کے جج اس کو سنتے نہیں ہیں۔ ہمارا خیال ہے کہ اب ان جج صاحب کو اس کیس میں نہیں ہونا چاہیے۔بانی چیئرمین پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے، انہیں انصاف نہیں مل رہا، جو کچھ ہو رہا ہے یہ پورے نظام پر دھبہ ہے اس دھبے کو دھونا ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان 4 ماہ سے سائفر کیس میں جیل کے اندر ہیں۔ ایک مقدمے میں ضمانت ملتی ہے تو دوسرا جج تیار بیٹھا ہوتا ہے دوسرے کیس میں سزا دینے کے لیے ۔ عدالتوں کو سوچنا ہوگا ، سسٹم کو دوبارہ کھڑا کرنا ہوگا۔ 24 کروڑ لوگوں کا اعتماد عدالتوں سے اٹھتا جا رہا ہے۔ نواز شریف کو جس طرح کی ریسپشن دی گئی، اس کے لیے بھی عدالتوں کا مذاق بنایا گیا۔جو کچھ الیکشن کے نام پر ہو رہا ہے اس سے بہتر ہے نواز شریف کو سیدھا پرائم منسٹر ہاؤس میں لے جا کر بٹھا دیں۔
علیمہ خان کا مزید کہنا تھا کہ عمران خان کے حوصلے بلند ہیں ان کو دیکھ کر ہمارا مورال بھی بوسٹ ہوتا ہے۔ علیمہ خان نے صحافی جاوید چوہدری کے دعوے کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ وہ بالکل نہیں رو رہے تھے، ٹھیک ہے۔ عمران خان صرف اس بات پر نالاں تھے کہ پچھلے 5 ماہ سے ان کی صرف ایک بار ان کے بیٹوں سے بات کروائی گئی۔عمران خان نے بچوں سے بات کروانے کی اپیل کی تھی اور وہ اس بات پہ ناراض تھے بلکہ کافی ناراض تھے۔

واضح رہےکہ سینئر صحافی جاوید چوہدری نے دعویٰ کیا تھا کہ کل جیل کے اندر ٹرائل کے دوران عمران خان صاحب رو پڑے اور جیل کے عملے نے انہیں تشو پیپر دیے اور جب وہ آنکھیں صاف کررہے تھے تو وہاں اتنا سوگوار سا ماحول پیدا ہوگیا کہ جج صاحب بھی اپنی سیٹ سے اُٹھ کر چلے گئے۔ نیب کے اہلکار اور ان کے وکلا بھی اپنی سیٹ سے اُٹھ کر چلے گئے بلکہ جو امجد پرویز صاحب نیب کے وکیل ہیں وہ چلتے چلتے عمران خان صاحب کے پاس آئے اور انہوں نے کہا کہ آپ اپنی فیملی کے ساتھ بات کرلیں ہم تھوڑی دیر بعد واپس آتے ہیں۔ اس کے بعد یہ ہیئرنگ رک گئی اور جج صاحب، ان کا عملہ، رپورٹر اور باقی کے سب لوگ کھانا کھانے کے لیے چلے گیے۔ آدھا گھنٹہ بعد پھر دوبارہ ہیئرنگ ہوئی۔